دور جدید کا محمد شاہ رنگیلا ۔ حامد میر
سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اگر انسان کی شکل اچھی نہ ہو تو کم از کم اُسے بات تو اچھی کرنی چاہئے۔ میں پرویز مشرف کی شکل کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ تمام شکلیں الله تعالیٰ بناتا ہے لیکن اتنا کہنے کی گستاخی ضرور کروں گا کہ اکثر انسانوں کا کردار اُن کی شکل سے پہچانا جاتا ہے۔ پرویز مشرف کے کردار اور اُن کی شکل کا رنگ کچھ زیادہ مختلف نظر نہیں آتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس شخص کو پاکستانی فوج کا سپہ سالار بنانے کی سنگین غلطی کسی اور نے نہیں بلکہ نواز شریف نے بطور وزیراعظم کی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ نواز شریف کے حلقہ احباب میں شامل ایک صاحب نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں وزیراعظم سے کہوں کہ وہ فوج کے سینئر ترین جرنیل علی قلی خان کو آرمی چیف بنانے کی بجائے کور کمانڈر منگلا پرویز مشرف کو آرمی چیف بنادیں۔ یہ سُن کر میں لرز گیا اور میں نے حیرت سے اُن صاحب کو پوچھا کہ ابھی تو جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی مدت ملازمت پوری نہیں کی پھر آپ لوگ نئے آرمی چیف کے لئے لابنگ کیوں کررہے ہیں؟
موصوف نے جواب میں کہاکہ وزیراعظم نے آرمی چیف سے استعفےٰ طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کیوں کہ آرمی چیف نیشنل سکیورٹی کونسل بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں اور یہ مطالبہ وزیراعظم کو پسند نہیں آیا۔ وزیر خارجہ گوہر ایوب کی کوشش ہے کہ اُن کا سالا علی قلی خان نیا آرمی چیف بن جائے جب کہ چوہدری نثار علی خان نے پرویز مشرف کے لئے سفارش کی ہے۔ میں نے وزیراعظم کے اس دوست سے پوچھا کہ آپ اور چوہدری نثار علی خان کی طرف سے پرویز مشرف کی سپورٹ کیوں کی جارہی ہے؟ جواب ملا کہ دراصل پرویز مشرف کی شکل ایسی ہے کہ وہ کبھی ٹیلی ویژن پر آنا پسند نہیں کرے گا اور جو ٹیلی ویژن پر آنے سے کترائے وہ کبھی مارشل لاء نہیں لگائے گا۔ یہ سُن کر میں اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکا اور مجھے بادل نخواستہ کہنا پڑا کہ اگر جنرل ضیاء الحق ایک مارشل لاء لگا سکتا ہے تو پرویز مشرف دو مارشل لاء لگائے گا۔
مجھے یقین تھا کہ نواز شریف نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ میرٹ پر کریں گے لیکن جس دن پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا اعلان ہوا میں نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اُس وقت کی حکومت کے وفاقی وزیر برائے نجکاری خواجہ محمد آصف سے کہا کہ اب آپ جمہوریت کی خیر منائیں۔ خواجہ صاحب نے میرے ریمارکس کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا کہ پرویز مشرف کی شکل میں جنرل ضیاء الحق کی شکل چھپی نظر آتی ہے افسوس کہ آپ کے وزیراعظم چہرہ شناس نہیں نکلے۔ خواجہ صاحب نے میری رائے کو بڑی سنگ دلی سے مسترد کردیا تھا۔
اتفاق یہ ہوا کہ جس دن پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت ختم کی اُس شام میں نے خواجہ محمد آصف کو اپنی بات یاد دلائی تو انہوں نے بڑے افسوس سے کہا کہ اوہو بڑی غلطی ہوگئی اورپھر تھوڑی ہی دیر میں اُنہیں اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں اُن کی رہائش گاہ پر نظر بند کردیا گیا۔ نواز شریف کے وہ دوست جنہوں نے کچھ عرصہ قبل مجھے پرویز مشرف کی سفارش کے لئے کہا تھا اُنہوں نے نوازشریف کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ سفارت جو نواز شریف نے اُنہیں عطاء کی تھی وہ مشرف دور میں بھی اُسی سفارت کی کرُسی پر بیٹھے رہے۔ نوازشریف نے پرویز مشرف جیسے شخص کو آرمی چیف بناتے ہوئے آئی ایس آئی کی رپورٹوں کو بھی نظر انداز کیا۔ آئی ایس آئی نے نواز شریف کو خبردار کیا تھا کہ پرویز مشرف ایک ناقابل اعتبار اور شکستہ ذہن انسان ہے۔
حیرت تھی کہ ایسا شخص کورکمانڈر کیسے بن گیا؟ مشرف کے سینے پر آرمی چیف کا تمغہ سجا کر نواز شریف نے نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ پوری قوم کے ساتھ بھی زیادتی کی۔ اب وقت آگیا ہے کہ نوازشریف اپنی اس زیادتی پر قوم سے معافی مانگیں کیوں کہ جس شخص کو آپ نے کچھ دوستوں کی سفارش پر آرمی چیف بنایا اُس نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ آئین توڑا‘ اُس نے کور کمانڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر امریکا کو پاکستان میں فوجی اڈے دیئے‘ امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دی‘ اکبر بگٹی کو قتل کیا‘ لال مسجد آپریشن کا ڈرامہ کیا جس کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ اگر میں نہ رہا تو اسلام آباد پر طالبان کا قبضہ ہوجائے گا‘ جس نے پاکستان کو خودکش حملے اور لوڈ شیڈنگ دی‘ جس نے کشمیر کی تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لئے حریت کانفرنس کے دو ٹکڑے کردیئے اور جس نے اپنے ذاتی اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے عدلیہ پر حملہ کردیا۔ آج پرویز مشرف لندن اور برمنگھم میں بیٹھ کر فرماتے ہیں کہ نواز شریف کو دو مرتبہ اقتدار ملا لیکن وہ دونوں مرتبہ ناکام ہوئے۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کو دو مرتبہ اقتدار ملا لیکن دونوں کا کُل عرصہ اقتدار چار چار سال سے زیادہ نہ تھا۔ دونوں نے کل ملا کر آٹھ سال حکومت کی جب کہ مشرف 1999ء سے 2008ء تک بلاشرکت غیرے حکمران تھے۔ وہ نو سال میں پاکستان کو تباہی کے سوا کچھ نہ دے سکے۔ نو سال تک اُن کی اصل طاقت پاکستانی فوج تھی جسے انہوں نے سیاست میں بڑی بے دردی سے استعمال کیا۔ مشرف نے اپنی کتاب ”ان دی لائن آف فائر“ کے صفحہ 166 پراعتراف کیا کہ 2002ء میں اُن کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز نے مسلم لیگ(ق) بنائی تھی۔ موصوف بھول گئے کہ وہ وردی پہن کر مسلم لیگ (ق) کے جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔ اور مسلسل نو سال تک جھوٹ بولتے رہے۔
انہوں نے سیاست کا آغاز یکم اکتوبر 2010ء کو نہیں 12 اکتوبر 1999ء کو کردیا تھا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگاکر سب سے پہلے پاکستانی مفادات کا سودا شروع کردیا۔ ڈرون حملے سب سے پہلے انہوں نے شروع کروائے۔ خودکش حملے سب سے پہلے ان کے دور میں شروع ہوئے‘ ججوں کو گرفتار کرنے کی روایت سب سے پہلے انہوں نے شروع کی‘ دو مرتبہ آئین توڑنے کا ”اعزاز“ بھی سب سے پہلے مشرف کو حاصل ہوا۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر پاکستان کو دنیا میں سب سے پیچھے دھکیل دیا۔ اب وہ دوبارہ مست ہوکر سیاست میں واپسی کا اعلان فرمارہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وہ بہت زیادہ پی کر تقریر کرتے ہیں اس لئے بہک جاتے ہیں۔ الله تعالیٰ پاکستان کو دور جدید کے محمد شاہ رنگیلوں سے محفوظ رکھے جو اپنے دور حکمرانی میں سرپر گلاس رکھ کر ناچا کرتے تھے۔ آج کے محمد شاہ رنگیلے جان لیں کہ پاکستان بدل چکا ہے اور کسی ناچنے والے کو دوبارہ پاکستان کے حکمران کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔
|