عقیدت و محبت کا سفر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
میں ایک طرف کھڑا سوچ رہا تھا کہ اللہ کے بندوں کی بھی عجب شان اور آن بان ہوتی ہے۔ جب تک زندہ رہتے ہیں لوگوں کے دلوں اور روحوں پرحکومت کرتے ہیں، بڑے بڑے جابر بادشاہ اور فاتح جرنیل جن کے قدموں کی آہٹ سے سلطنتیں اور حکمران لرز جاتے ہیں ان کے قدموں میں بیٹھنا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں اور فقیروں کے درپر حاضری دے کر سکون قلب سے دامن بھرتے ہیں۔ جب اللہ کے یہ بندے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو پھر بھی خلق خدا کے دلوں پر حکومت کرتے اورروحوں میں بستے رہتے ہیں۔ ان کے فیض کے چشمے جاری و ساری رہتے ہیں اور خلوص نیت سے آنے والے ان سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں۔ شرط خلوص نیت کی ہے۔ ان کے برعکس بادشاہوں، حکمرانوں اور فاتح جرنیلوں کی قبریں ”لے چراغ، نے گلے“ کی عبرتناک تصویر لگتی ہیں اورحسرت و یاس کی کہانی معلوم ہوتی ہیں
۔ یہ صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری کامزار تھاجنہیں عرف عام میں ہم حضرت ایوب انصاری کے نام گرامی سے یاد کرتے ہیں اور میں استنبول میں ان کے مزار کی پائننتی کھڑا قرآنی آیات پڑھتے ہوئے اپنے خیالات کی ندی میں بہہ رہا تھا۔ میں چشم تصور سے دیکھ رہا تھا کہ جب سرور کونین مکہ معظمہ سے ہجرت کرکے یثرب پہنچے تو وہاں جشن کا سماں تھا اورہر مسلمان قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ حضور اکرم انہیں مہمان نوازی کااعزاز بخشیں لیکن آپ ہر قبیلے کی دعوت پردعائے خیر فرماتے اور کہتے جاتے اس اونٹنی کو کھلا چھوڑ دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مامور ہے۔ حضور کی اونٹنی جب موجودہ حرم نبوی کے دروازے کے قریب پہنچی تو بیٹھ گئی۔ حضور اونٹنی سے نہ اترے۔ وہ اٹھی چند قدم چل کر پھر واپس اسی مقام پر آ کر بیٹھ گئی۔
پھراونٹنی نے وہ مخصوص آواز نکالی جو اونٹ بیٹھنے کے وقت نکالتے ہیں۔ اس کے قریب حضرت ابو ایوب انصاری کا مکان تھا ۔مجھے یہ مکان کوئی بائیس تئیس برس قبل دیکھنے کا موقعہ ملا اب تویہ مسجد نبوی کا حصہ بن چکا ہے۔اونٹنی بیٹھی تو حضرت ابو ایوب انصاری خوشی کے مارے دوڑے۔ اتنے میں بنو نجار قبیلے کے کئی حضرات پہنچ گئے اورشرف ِ میزبانی کے لئے درخواست کرنے لگے۔ سرور کائنات رحمت دوعالم کسی کی دل آزاری نہیں چاہتے تھے چنانچہ فرمایا کہ قرعہ ڈال لو ۔
اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا۔ قرعہ حضرت ایوب انصاری کے نام نکلااور حضور تقریباً چھ ماہ ان کے مہمان رہے۔ اس طرح حضرت ابو ایوب انصاری کو تاریخ اسلام میں وہ مقام اور درجہ مل گیا جو کسی اور کے نصیب میں نہ تھا۔ حضور نے اسی دوران مسجد بنانے کا فیصلہ کیا اور یثرب کا نام طیبہ رکھ دیا لیکن یہ مدینتہ النبی کہلانے لگا۔ اسی لئے میں مدینہ طیبہ یا مدینہ منورہ لکھتا ہوں کیونکہ حضور نے یثرب کہنے سے منع کیا تھا اور صرف مدینہ کہنے یا لکھنے سے ادب کے تقاضے پورے نہیں ہوتے جبکہ یہ سارا سلسلہ ہی ادب کا ہے۔ اس دنیا کا ہر قدم ادب کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت ایوب انصاری کے اسی گھر کے سامنے مسجد نبوی تعمیر ہوئی جو اسلامی دنیا کا پہلا مرکز تھا اور یہیں ازدواج مطہرات کے حجرے بنے جن میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا وہ حجرہ بھی شامل ہے جہاں آپ نے وصال فرمایا اور دفن ہوئے۔
حضرت ابو ایوب انصاری کے عشق رسول اور سوز وگدا ز کی ایک معمولی سی جھلک محترم کلیم چغتائی صاحب نے اپنی دلچسپ اور معلومات افروز کتاب ”رفیقان محمد “ میں یوں پیش کی ہے ”دروازے پر دستک ہوئی۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھلا۔ صاحب ِ خانہ باہر آئے اور ایک بزرگ کو دیکھتے ہی خوشی سے کھل اٹھے۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی اور عقیدت کے ساتھ بزر گ کو خوش آمدیدکہا اور مکان کے اندرچلنے کی درخواست کی۔ بزرگ سینکڑوں میل کا سفر کرکے ابھی ابھی یہاں پہنچے تھے۔ ان کی عمر 70 برس سے متجاوز تھی۔ طویل سفر اور عمرکا تقاضا یہی تھا کہ بزرگ کچھ دیر آرام فرماتے، غسل کرکے تازہ دم ہو جاتے اور کھانا تناول فرماتے لیکن بزرگ کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ فی الحال ٹھہرنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور انہیں کوئی ضروری کام درپیش ہے۔ بزرگ نے شہر کے حاکم کے مکان کا پتا دریافت کیا اور بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئے۔ حاکم کو اطلاع ہوئی تو وہ بے تابانہ باہر نکل آئے اور بزرگ کا بڑی محبت کے ساتھ خیرمقدم کیا اور اپنی رہائش گاہ میں تشریف لانے کی دعوت دی۔ لیکن بزرگ نے حاکم شہر سے فرمایا :میں تم سے ایک خاص حدیث رسول سننے کے لئے آیاہوں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں اس حدیث کا جاننے والا تمہارے سوا کوئی نہیں ہے۔ حضور نے یہ حدیث اس وقت فرمائی تھی جب تمہارے سوا ان کی خدمت میں کوئی نہ تھا۔
حاکم شہر نے حدیث کی نوعیت معلوم کی اور تصدیق کی کہ انہوں نے سرور کائنات سے یہ حدیث سنی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے حدیث کے الفاظ بزرگ کے سامنے دہرائے۔ حدیث سن لینے کے بعد بزرگ نے حاکم شہر سے اجازت چاہی، سینکڑوں میل کے سفرکی تکان ان کا راستہ نہ روک سکی نہ انہوں نے آرام فرمایا، نہ کھانا کھایا نہ غسل کیا بلکہ حدیث سنتے ہی حاکم شہر سے الوداعی مصافحہ کرکے اونٹ پر سوار ہوئے اور اپنے شہر کی جانب روانہ ہوگئے۔ حدیث رسول کی سماعت کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر کرنے والے یہ بزرگ عظیم المرتبت صحابی رسول حضرت ابو ایوب انصاری تھے جنہوں نے صرف ایک حدیث کی تصدیق کی خاطرمدینہ منورہ سے مصر تک کا طویل سفر طے کیا۔ اس زمانے میں آمد ورفت کے ذرائع تیز رفتا رنہ تھے اور راستے بھی ہموار نہ تھے پھر آپ کی عمر 70 برس سے متجاوز ہوچکی تھی لیکن آپ کو علم تھا کہ مصر کے حاکم حضرت عقبہ بن عامر جہنی ہی اس حدیث کے سامع ہیں اور ان کی روایت کردہ احادیث مستند سمجھی جاتی ہیں۔ اس لئے آپ نے یہ حدیث سننے کی خاطر سینکڑوں میل کا سفر طے کیا۔ پھر آپ کے اخلاص نیت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ نے اپنے سفر کا مقصد حاصل کرلیا یعنی حدیث سن لی تو مزید کچھ دیر ٹھہرنا گوارہ نہ کیا۔
حضرت ایوب انصاری کا اصل نام خالد بن زید تھا لیکن وہ اپنے بیٹے ایوب کے نام کی کنیت کی وجہ سے ابو ایوب انصاری کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کو صرف میزبان رسول ہونے ہی کی فضیلت حاصل نہیں بلکہ آپ کا شمار انصار ِ مدینہ میں اولین ایمان لانے والوں میں ہوتا ہے۔ آپ کو تمام غزوات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور قسطنطینہ (استنبول) کے معرکے کے دوران حالت ِ جہاد میں آپنے داعی اجل کو لبیک کہا اور استنبول کی فصیل کے قریب دفن ہوئے۔ (جاری ہے)
|