پتھر دل ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
تاریخ بتاتی ہے کہ بھٹو کے بعد برسراقتدار آنے والے ہر حکمران کو عوام سے یہ شکایت رہی ہے کہ جب انہیں اقتدار سے ”دیس نکالا“دیا گیا تو نہ کسی نے احتجاج کیا اور نہ ہی اس اقدام کی بھرپور مزاحمت کی گئی۔ میاں نواز شریف نے اسے یوں بیان کیا تھا کہ میں جب اقتدار میں تھا تو تم لوگ نعرے لگاتے تھے میاں نواز شریف قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں جب میں نے قدم بڑھایا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ بھٹو کو یہ گلہ اس لئے نہیں تھا کہ اس کے لئے جیالوں نے کوڑے کھائے، جیلیں بھگتیں اور قلعوں کے صعوبت خانے برداشت کئے۔ ایک بار کسی سابق حکمران نے عوام کی سرد مہری کی شکایت کی تھی تو میں نے عرض کیا تھا کہ آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اقتدار کے نشے میں مست ہو کر جس طرح ہمارے حکمران قومی خزانے کو دشمن کے مال کی طرح اڑاتے ہیں ، قانون اور میرٹ کو پامال کرتے ہیں، قومی وسائل پر ڈاکے ڈالتے ہیں، اس کے بعد پھر بھی یہ خواب دیکھنا کہ محروم اقتدار ہونے پر عوام مزاحمت کریں گے ایک ایسا خواب ہے جو صرف خوابوں کی دنیا میں رہنے والا ہی دیکھ سکتا ہے ۔
ماشااللہ ہماری محبوب جماعت پیپلز پارٹی نے اس مرض کے علاج کے لئے یہ نسخہ دریافت کیا ہے کہ حکومتی اداروں کو جیالوں سے بھر دو چاہے ملکی خزانہ، میرٹ اور اصول اس کے بوجھ تلے چلاتے اور آہیں بھرتے رہیں۔ کس قدر دیدہ دلیری سے ہمارے وزیر اعظم صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم لوگوں کو نوکریاں دیتے رہیں گے ،ہمیں کسی کا ڈر نہیں۔ میں پہلے ہی اس جرم کی پانچ سال سزا بھگت چکا ہوں۔ دیدہ دلیری میں نے اس لئے کہا کہ نوکری دینے پر بھلا کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے؟ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کی دل وجان سے دعا اور حمایت کرتے ہیں بشرطیکہ اس میں اصول و ضوابط اور میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔ بے وسیلہ ، غیر سیاسی اور محروم طبقوں کے پڑھے لکھے اور لائق بچوں کو صرف اس جرم کی سزا نہ دی جائے کہ ان کے پاس سفارش نہیں۔
اپنی سپیکری کے دور میں بھی محترم گیلانی صاحب نے صرف اپنے انتخابی حلقے اور علاقے پر نظر کرم کی بارش کی تھی اور نظر کرم کرتے ہوئے اصول و ضوابط کی حدود سے گزر گئے تھے ۔ اب بھی یہی ہو رہا ہے کہ محترم صدر صاحب ہر اہم پوسٹ پر اپنے مہرے بٹھا رہے ہیں اور گیلانی صاحب اپنے پسندیدہ حضرات کو نوکریوں کے آسمان پر بٹھا رہے ہیں۔ خان بہادر سفارش خان کے اس حملے میں قانون، میرٹ اور اصول روندے جا رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار کی سیڑھی پر چڑھتے ہی پی آئی اے ، نیشنل بنک، سوئی گیس، سٹیل ملز اور دوسرے قومی اداروں میں بھرتیوں کی بھرمار کر دی تھی اور ان جیالوں کو بھی بحال کر دیا تھا جنہیں گزشتہ دور میں اصول و ضوابط کے خلاف بھرتی پر نکالا گیا تھا۔ خزانے پر اربوں روپوں کا بوجھ پڑا اور پی آئی اے ، سوئی گیس، سٹیل ملز کی نہ صرف کارکردگی بدتر ہوئی بلکہ کچھ اداروں کے خساروں میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گیا لیکن رونا اس بات کا ہے کہ حکمرانوں کو ملکی خزانے کی بالکل پرواہ نہیں حالانکہ ملک ادھار اور امداد پر چل رہا ہے ۔
نہ حکمرانوں کی شاہ خرچیوں میں کمی ہوئی ہے اور نہ ہی ملکی دولت کے ضیاع کا سلسلہ رکا ہے جبکہ اس وقت ملک و قوم اپنی تاریخ کے شدید ترین ابتلاء سے گزر رہے ہیں اور سیلاب نے ہماری کمر ہی توڑ دی ہے ۔ ہم ان روایات کے امین ہیں کہ حضرت عمر ذاتی کام کرتے ہوئے بیت المال کے تیل سے جلنے والا چراغ بجھا دیتے تھے ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ قائد اعظم زیارت میں علالت کے باعث بھوک کھو چکے تھے ۔ معالج کرنل الٰہی بخش نے لاہور سے ایک باورچی بلایا اس کا پکایا ہوا کھانا قائد اعظم نے سیر ہو کر کھایا اور پوچھا کہ کھانا کس نے پکایا تھا ۔پتہ چلنے پر چیک بک منگوائی اور باورچی کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کر دیئے۔ہمارے شہزادوں کا یہ عالم ہے کہ قصر صدارت کا روزانہ خرچ بجٹ کے مطابق دس لاکھ روزانہ ہے اور وزیراعظم صاحب کا بجٹ 30لاکھ روزانہ ہے اور یہ اس ملک کے حکمران ہیں جہاں ستر فیصد عوام غربت کا شکار ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ میں وزیر اعظم کے صوابدیدی اخراجات کی تفصیل پڑھ کر کانپ گیا۔ اگر ہم جمہوریت کے علمبردار بنتے ہیں تو ہمیں علم ہونا چاہئے کہ جمہوری اصولوں کے مطابق قومی خزانے سے پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر کچھ خرچ نہیں کیا جا سکتا نہ ہی جمہوری ممالک میں وزیر اعظم کو اس قدر صوابدیدی فنڈز ملتے ہیں کہ وہ قومی خزانے کو ریوڑیوں کی مانند بانٹتا پھرے۔ ہمارے محبوب وزیر اعظم صاحب نے اپنی صوابدید کے مطابق پانچ کروڑ روپے تو شیری رحمان کو دیے اور پھر لاکھوں پر مشتمل بڑی بڑی رقمیں یوں بانٹیں جیسے یہ کسی دشمن ملک کا خزانہ ہو
۔انگلستان کی آئرن لیڈی اور وزیر اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وزیر اعظم ہاؤس 10ڈاوننگ سٹریٹ کی مرمت، پرانے اور ناکارہ فرنیچر کو بدلنے کے لئے مجھے پانچ ہزار پاؤنڈ کی ضرورت تھی جس کے لئے مجھے پانچ سال انتظار کرنا پڑا جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب اپنے صوابدیدی فنڈ سے کھڑے کھڑے کروڑوں کی بارش کر دیتے ہیں ۔ مسئلہ ترجیحات کا ہے ایک اندازے کے مطابق سیلاب زدہ علاقے کے دیہاتوں میں دو لاکھ روپے میں گھر بنا کر کسی بے چھت کو چھت فراہم کی جا سکتی ہے ۔ میں حساب لگا رہا تھا کہ اگر وزیر اعظم صاحب کے دل میں قوم کا معمولی سا بھی درد ہوتا اور وہ اپنے صوابدیدی فنڈ کو یوں برباد نہ کرتے تو اس رقم سے دس بارہ ہزار بے مکانوں کو مکانات بنا کر دیے جا سکتے تھے ۔لوٹ مار اور کرپشن اپنی جگہ لیکن مالی زیاں کا یہ حال ہے کہ بقول سپریم کورٹ جج اٹھارہ ارب روپے لگا کر بھی قوم کو صرف 150میگاواٹ بجلی ملی ہے ” مخدوم“ صالح حیات کے انکشافات اور رینٹل ہاؤسز کی کہانی اور راجہ پرویز مشرف پر لندن کی جائیداد کا الزام ہم جیسوں کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہے ۔
ایک طرف سیلاب کی ماری قوم پیسے پیسے کو ترس رہی ہے دوسری طرف امداد کی بھیک مانگنے والا وفد شاہ محمود قریشی کی قیادت میں نیویارک کے سیون سٹار ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے جہاں وفد کا خرچہ ساڑھے پینتالیس ہزار ڈالر یومیہ ہے اور اگر چار دن کے خرچے کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کریں تو رقم کروڑوں روپے بنتی ہے جس سے ساڑھے سات سو سیلاب زدگان کو رہائش فراہم کی جا سکتی ہے یہ ضیاع اور فضول خرچی کی دیگ کا صرف ایک دانہ ہے تفصیل میں جاؤں تو کتاب بنتی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ میں سوچ کر پریشان ہو جاتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کو قومی خزانے کے تقدس کا ذرا بھی خیال نہیں، انہیں عوام کے دکھوں کا بالکل احساس نہیں، کیا وہ سینوں میں دلوں کی جگہ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر بھی ان کا دل نرم نہیں پڑتا؟
|