جنوبی پنجاب کی بربادی پر ایک نا مکمل کالم . خالد مسعود خان
سیلاب یقینا ایک قدرتی آفت تھی لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والے ہولناک نقصانات کا بیشتر حصہ صرف انتظامی، نااہلی، بدنیتی، بددیانتی اور حکومتی بدانتظامی کے باعث ممکن ہو پایا۔ صوبہ سرحد یا سندھ میں شاید وجوہات تھوڑی بہت مختلف ہوں مگر جنوبی پنجاب کے ایک سو ساٹھ کلو میٹر علاقے کی تباہی و بربادی کا باعث محکمہ آبپاشی کی نااہلی، بد انتظامی، ٹھیکیداروں کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجے میں ہونے والی لامحدود کرپشن اور پنجاب حکومت کی سیلاب کے دوران ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سیلاب سے تباہی کا آغاز تو جولائی کے مہینے میں ہوا مگر اس کی بنیادیں کئی برس لگا کر بڑی محنت سے تیار کی گئی تھیں۔
محکمہ آبپاشی میں ہونے والی کرپشن کی تاریخ ویسے تو تقریباً تریسٹھ سال پرانی ہے مگر اس میں حیرت انگیز اضافہ پچھلے چند سال کی دین ہے۔ روٹین کی ہونے والی کرپشن میں یکدم اضافے کا باعث وہ عالمی امداد اور قرضہ جات تھے جن کے طفیل محکمہ آبپاشی کے افسران نے محکمے کی ری ڈیزائننگ، استعداد کار میں اضافے اور بے تحاشا ہونے والے تعمیراتی کاموں کے ٹھیکوں میں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے کھانچوں نے محکمے کے زیر انتظام سارے ڈھانچے کو برباد کر کے رکھ دیا۔ نتیجتاً کھوکھلا انفراسٹرکچر سیلاب کے پہلے ہی ہلے میں بہہ گیا۔ کروڑوں روپے ٹھیکیداروں اور محکمہ افسروں کی جیب میں چلے گئے اور لیہ، مظفرگڑھ اور راجن پور کے عوام برباد ہو گئے۔
عالمی اداروں سے ملنے والے قرض کی بنیاد پر محکمے میں ایک اور نیا ڈھانچہ بنایا گیا جس کا نام (PMIU) پروجیکٹ مینجمنٹ اینڈ امپلی مینٹیشن یونٹ رکھ دیا گیا۔ پہلے جو کام گریڈ چھ سات کا گیج ریڈر اور گیارہویں گریڈ کا اوورسیٹر کرتا تھا اب اسی کام کے لئے محکمہ آبپاشی کے ہی کاریگر افسروں کو لاکھوں روپے کی تنخواہ پرڈیپوٹیشن پر لے لیا گیا۔ قومی خزانے کی لوٹ مار کے عادی محکمے کے پھرتیلے افسروں نے قرضوں کے بل پر بہنے والی اس گنگا سے اپنے ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا اور کمر کس کر میدان میں آ گئے۔ ایک ایس ڈی او جو گریڈ سترہ کا ملازم تھا نئے محکمے میں بغیر کسی اشتہار کے گریڈ انیس کی پوسٹ ڈائریکٹر گیج پر براجمان ہو گیا۔ وہی افسر جو دو دن پہلے بیس پچیس ہزار روپے تنخواہ لیتا تھا اب ایک لاکھ سے زائد تنخواہ، چار سو لیٹر پٹرول اور ایک عدد ڈبل کیبن گاڑی کی قسمت کا مالک بن گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس نئے محکمے کے سربراہ کے فارغ ہونے کے بعد یہ صاحب Look After کے نام پر گریڈ بیس کی پوسٹ پر چیف مانیٹرنگ بن گئے اور قانون کے تحت Look After کرنے کی حد جو نوے دن تھی اور اس میں اسے فنانشل پاور بھی حاصل نہیں تھی۔ پانچ سال تک بیٹھا رہا اور پونے دو ارب روپے اپنے دستخطوں سے خرچ کر دیئے۔ سترہ گریڈ سے چھلانگ لگا کر چیف مانیٹرنگ بننے والے اس کا ریگر افسر کی تنخواہ ذرائع کے مطابق اڑھائی لاکھ روپے کے لگ بھگ تھی اور یہ تمام اللے تللے اس قرض رقم پر اڑائے جا رہے تھے جو میں نے آپ نے اپنی حق حلال کی کمائی میں سے دیئے جانے والے ٹیکسوں سے ادا کرنی ہے۔
یہ پوسٹ اخبار میں مشتہر ہونی لازمی تھی اور طے شدہ مطلوبہ معیار کے مطابق اس پر کم از کم 25سالہ تجربہ رکھنے والے کسی ریٹائرڈ ماہر آبپاشی کو تعینات کرنا تھا لیکن میرٹ اور قاعدے ضابطے پر کاریگری حاوی ہو گئی۔ 30 جولائی 2010ء کو محکمہ آبپاشی میں ”ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی“ یعنی ڈی پی سی کی میٹنگ تھی۔ پروموشن میں شامل ہونے کے لئے ڈیپوٹیشن پر دوسرے محکموں میں متعین افسران کو کم از کم چھ ماہ پہلے اپنا اصل محکمہ جوائن کرنا ہوتا ہے مگر موصوف نے صرف ایک دن پہلے یعنی 29 جولائی کو محکمے میں رپورٹ کی اور اگلے ہی روز ایکسین (X-EN) کے لئے ہونے والے پروموشن بورڈ میں پیش ہو گئے۔
شنید ہے اس روز سیکرٹری آبپاشی پنجاب کمیٹی کی میٹنگ میں شامل ہی نہ تھے مگر موصوف نہ صرف پروموٹ ہو گئے بلکہ وہ واحد شخص تھے جو ریگولر ہوئے۔ جو شخص اپنے محکمے میں واپس آ کر پروموٹ ہو وہ دوبارہ دو سال تک ڈیپوٹیشن پر نہیں جا سکتا مگر کسی خاص گیدڑ سنگھی کے حامل اس افسر نے دوبارہ PMIU جوائن کیا اور مورخہ سترہ اگست کو یعنی محکمہ آبپاشی دوبارہ جوائن کرنے کے اٹھارہ دن بعد بطور ڈائریکٹر گیج سترہ لاکھ مالیت کے چیک جاری کئے جو کیش بھی ہو گئے۔ اس کاریگر افسر کی ہر غیر قانونی پوسٹنگ، ترقی اور حرکات کے پیچھے سیکرٹری آبپاشی پنجاب کا نام نامی لیا جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہی کا نقطہ آغاز تونسہ بیراج کے بائیں طرف واقع LMB یعنی لیفٹ مارجنل بند کا ٹوٹنا تھا اور پھر بے قابو پانی کا ریلہ کوٹ ادو، سنانواں، قصبہ گرمانی، محمود کوٹ، گجرات، اے ای ایس لال پیر، پی ایس او ڈپو، پارکو آئل ریفائنری، کیپکو پاور سٹیشن، غازی گھاٹ بدھ، کرم داد قریشی، بصیرہ، شال جمال، روہیلانوالی، شہر سلطان اور جتوئی کو کھنڈروں میں تبدیل کرتا، لاکھوں لوگوں کو بے گھر اور برباد کرتا ہوا تباہی کی ایک ایسی داستان رقم کر گیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی اور اس کی وجوہات بھی وہی ہیں جن کا پہلے ہی ذکر ہو چکا ہے۔ یہاں یعنی تونسہ بیراج پر بھی ایک کاریگر افسر تعینات تھا۔ یہ افسر جس کے پاس اس وقت ایس ڈی او I، ایس ڈی اوII اور ایکسیئن X-EN تونسہ کا اضافی چارج تھا۔ ایک عرصے سے تونسہ بیراج پر تعینات یہ افسر تونسہ بیراج کے سب سے بڑے ٹھیکیدار کامبینہ حصہ دار ہے۔ یہ وہ ٹھیکیدار ہے جس نے نہ صرف دس ارب چونسٹھ کروڑ چودہ لاکھ روپے سے ہونے والی تونسہ بیراج اپ گریڈیشن یعنی ری ماڈلنگ میں گیٹ نمبر پینتیس تا پینسٹھ کی ٹھیکیدار چینی کمپنی کے سب کنٹریکٹر کے طور پر کام کیا بلکہ اس ری ماڈلنگ کے نتیجے میں تونسہ بیراج کی استعداد ساڑھے دس لاکھ کیوسک تک بڑھ جانے کے نتیجے میں لیفٹ مارجنل بند کو اس بڑھ جانے والی مقدار کے مطابق اونچا اور مضبوط کرنے کا ٹھیکہ بھی دیا گیا۔
مٹی سے بنے ہوئے حفاظتی بند تین تہوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ مٹی کا ہوتا ہے پھر دریا کی جانب وا سائیڈ پر فلٹر میٹریل کے طور پر Crush یعنی باریک بجری کی ایک تہہ بچھائی جاتی ہے جو پانی کے رساؤ کو مٹی تک پہنچنے سے روکتی ہے اور سب سے اوپر Pitching کی جاتی ہے یعنی موٹا پتھر بچھایا جاتا ہے۔ لیفٹ مارجنل بند میں فلٹر میٹریل یعنی باریک بجری ڈالی ہی نہیں گئی تھی نتیجتاً LRB دس لاکھ کیوسک کے ریلے سے بہہ گیا لیکن لیفٹ مارجنل بند کے بہہ جانے کی اصل وجوہات اس سے بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ سیلاب کا ریلہ آنے سے پہلے، ریلے کے دوران اور ریلہ گزرنے کے بعد کے واقعات پر ایک تفصیلی کالم چند روز بعد فی الوقت اسی نامکمل کالم پر گزارہ کیجئے۔
|