با ادب با مقصود ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
اگر کوئی شخص دل کی گہرائیوں، خلوص اور دردمندی سے ایک ہی بات بار بار کہے تو وہ سننے والے کے ذہن پرپتھر کی لکیر کی مانند کنداں ہو جاتی ہے۔ میں سکول کا طالب علم تھا تو ہمارے ایک مہربان بزرگ یہ فقرہ بار بار دہرایا کرتے تھے ”با ادب بامقصود۔ بے ادب بے مقصود“ میں اس فقرے کا مفہوم فقط یہ سمجھتا تھا کہ بڑوں کا ادب کرو، بزرگوں کا احترام کرو۔ سچی بات یہ ہے کہ سکول کا زمانہ الہڑپن اور کھلنڈرے پن کا دورہوتا ہے اس لئے اس دور میں سنی ہوئی باتیں اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جب انسان عملی زندگی کے ریگستان میں کبھی تندوتیز ہواؤں کے تھپیڑے کھاتا ہے، کبھی گرم ریت کے بگولوں کا سامنا کرتا ہے اور کبھی شام کے سائے ڈھلتے ہی تھک ہار کرٹھنڈی ریت کے بستر پر لیٹ کر آسمان کو یوں گھورنے لگتا ہے جیسے کائنات کے راز سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو، جیسے چاند ستاروں سے پرے اور اوپر دوسرے جہانوں میں جھانکنے کی سعی لاحاصل میں مبتلا ہو۔
یہ بھی زندگی کی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ انسان ایک ہی بات کو مختلف وقتوں میں مختلف لوگوں کی زبان سے سنتا ہے اور ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے لیکن جب وہی بات کوئی شخص ایسے لمحے کہے جب طبیعت میں سوز وگداز نے قبولیت کی کیفیت پیدا کر رکھی ہو تو وہی بات نہ صرف دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اور غور و فکر کا موضوع بن جاتی ہے بلکہ اس کے نئے نئے پہلو اور نادر معانی اور گہرا مفہوم آشکارہ ہونے لگتے ہیں ، خیالات کی پریاں پر کھولنے لگتی ہیں اور راز بے نقاب ہو کر ذہن پر القا ہونے لگتے ہیں۔آج سے کوئی چالیس برس قبل میں پنجاب کے ایک دیہات میں اپنے ایک دوردرازکے عزیزکی وفات پر تعزیت کے لئے گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ محرم کی پہلی یا دوسری تاریخ تھی۔ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے بعد مرحوم کا بیٹا مجھے گھر کے اندر لے گیا کہ دوپہر کاکھانا کھالیں۔ ہم جب فرشی دسترخوان پر بیٹھے اور تنوری روٹی شوربے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے دیکھاکہ وہ صاحب کھانے کی بجائے نگاہیں دل پر مرکوز کئے بیٹھے تھے اورغوروفکر میں گم تھے۔
میں نے ہولے سے کہا کہ بھائی صاحب کھانا شروع کریں۔ جواب ملا ”صفدر صاحب! میں روزے سے ہوں“ یہ فقرہ ایک برقی ہاربن کر میرے جسم میں سرسے لے کر پاؤں تک گزر گیا اور میں پشیمان ہو کر نوالے سے کھیلنے لگا۔ صرف بات جاری رکھنے اور اپنی پشیمانی پر قابو پانے کے لئے میں نے کہا کہ ماشاء اللہ آپ نے بہت اچھا کیا آپ نیک انسان ہیں۔ عام طور پر لوگ نویں دسویں محرم کو روزے رکھتے ہیں۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک ایسا سادہ سا اور عام سا فقرہ کہا جو نہ صرف میرے ذہن پر نقش ہوگیا بلکہ دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے مفہوم کے نئے نئے پہلو بے نقاب کرنے لگا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اس فقرے کے سمندر میں غوطے کھا رہا ہوں اور میری نگاہوں کے سامنے ایک نیا جہاں کھلتا جارہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اگرچہ میں اس نہایت سیدھے سادے فقرے کے مفہوم میں گم ہو گیا لیکن اگر کوئی کہے کہ ہمیں بھی وہ مفہوم سمجھاؤ جو تم سمجھے تو میں شاید سمجھا نہ سکوں۔ زندگی میں بارہا ایسا ہوتاہے کہ انسان جو خود سمجھ لیتا ہے، خود پالیتا ہے اور جس مفہوم کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے اس کااظہار کرسکتا ہے نہ دوسروں تک بات پہنچا سکتا ہے۔ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا ہے کہ مرشدی علامہ اقبال کاکوئی شعر پڑھ کر اس کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا ہوں معانی کے نئے نئے جہان کھل رہے ہیں جن سے لطف اندوز ہو رہا ہوں لیکن اگر کوئی صاحب مجھ سے اس شعر کامفہوم بیان کرنے کو کہیں تو بات سطحی معانی تک محدود رہ جائے گی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قلبی اور ذہنی کیفیت اپنی اپنی ہوتی ہے اور وہ ہر شخص کی الگ الگ ہوتی ہے اس لئے آپ زبان سے اظہار تو کرسکتے ہیں لیکن اپنی ذہنی و قلبی کیفیت یا واردات دوسرے شخص کو منتقل نہیں کرسکتے۔
ہاں! اولیائے کرام کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہوتی ہے کہ وہ چاہیں تو اپنی کیفیت کا کچھ حصہ دوسرے کو منتقل کردیں۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے۔ میں نے جب اس نیم خواندہ شخص سے نویں دسویں کے روزے کی بات کی جومحض بات کی خاطر بات تھی تو نہایت سادہ سا جواب ملاا وروہ جواب یہ تھا ”صفدر صاحب! اصل میں یہ ساری بات ادب کی ہے۔ اس دنیا میں قدم رکھنے کے لئے پہلی شرط ہی ادب ہے۔ میں محرم شروع ہوتے ہی ادب کے تقاضوں کا پاس کرتے ہوئے روزے رکھنے شروع کر دیتا ہوں۔ صفدر صاحب اصل میں یہ ساری کہانی اور قصہ ہی ادب کا ہے۔“ اس دنیا سے ان کی کیا مراد تھی مجھے علم نہیں۔ میں ان کی بات سنتے ہوئے اپنے اندر کی کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب رہا تھا اور مجھے وہ مصرعہ بار بار یاد آ رہا تھا۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ گویا قرب الٰہی اور حب رسول کی پہلی رمز ادب ہے۔ بلاشبہ آپ حب ِ رسول اور عشق الٰہی کی دنیا میں ادب کی سیڑھی پر قدم رکھے بغیر نہ داخل ہوسکتے ہیں، نہ اس کے اندر جھانک سکتے ہیں اور نہ ہی اس محبت کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ کتنی چھوٹی سی بات ہے لیکن اپنے اندر معانی کا ایک جہان اور سمندرسمیٹے ہوئے ہے۔
بات چلی تو میں نے مدینہ شریف اور مکہ شریف کہہ دیا کہ ہم پنجاب والے احترام کے اظہار کے لئے مقدس مقامات کے ساتھ شریف کا اضافہ کرلیتے ہیں۔ انہوں نے ٹوکا صفدر صاحب! مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کہئے۔ میں ایک بار پھر ادب کی سیڑھی کے پہلے قدم پہ ہی لڑ کھڑا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے سہارا دے کر پھر کھڑاکر دیا۔ وہ دن اور آج کادن کہ میں ہمیشہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کہتا ہوں۔سچی بات یہ ہے کہ ایک نیم خواندہ شخص کے یہ الفاظ کہ ”باادب ۔ با مقصود اور بے ادب بے مقصود“ مجھے ایک دوسرے نیم خواندہ شخص سے ادب کی تشریح سن کر تھوڑے تھوڑے سمجھ میںآ ئے کیونکہ ادب کی دنیا ایک ایسی وسیع و عریض دنیا ہے جس میں انسان برسوں بھی سفر کرتارہے توکنارے تک نہیں پہنچ سکتا، بہت کچھ بھی سمجھ لے تو بہت کچھ سمجھ نہیں پاتا۔ گویاادب کا لفظ اپنے اندر مفہوم کا ایک جہان رکھتا ہے جو ہماری ظاہر بین نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔
سوچئے تو راز کھلے گا کہ حضرت ابراہیم کے خواب کے جواب میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے حضرت اسماعیل کو ”آداب ِ فرزندی “ بھی اس ادب نے سکھائے تھے۔ سچ ہے کہ با ادب ۔ با مقصود اور بے ادب بے مقصود…!! (نوٹ : 8اکتوبر کے کالم میں ، میں نے فتح قسطنطنیہ کا سال 1453 لکھا تھا جو 1953 چھپا۔ قارئین تصحیح کرلیں)
|