Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: AQKhan
Full Name: Dr Abdul Qadeer Khan
User since: 8/Jul/2009
No Of voices: 231
 
 Views: 1969   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

جمہوریت،آمریت اور انصاف ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان

 

کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے لندن سے ایک بیان داغ دیا تھا جس سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی۔ انھوں نے یہ بیان موجودہ حکومت کی زبوں حالی اور نااہلی سے تنگ آکر ”محب وطن فوجیوں“ کی حکومت کو بہتر اور وقت کی ضرورت قرار دیا ہے۔ اس بیان نے حکمران طبقہ اور دوسرے عیاشی کرنے والے طبقوں میں ہلچل مچا دی اور وہ وہی پرانا گھسا پٹا مانگا ہوا نعرہ لگانے لگے کہ بدترین جمہوریت آمریت سے زیادہ اچھی ہے حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ بعض ممالک میں آمرانہ دور جمہوری دور سے ہزار درجہ بہتر رہے ہیں اور نہ صرف ان ممالک نے بہت ترقی کی ہے بلکہ اپنے عوام کا معیار زندگی بھی اچھا کردیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں لاتعداد جمہوری دور ایسے گزرے ہیں اور موجود ہیں جو نہ صرف ملک بلکہ عوام کے لئے ایک لعنت ہیں۔ جنوبی کوریا، چین، روس وغیرہ میں آہنی ہاتھوں سے حکومت نے ان ممالک کو نہایت خوش حال ترقی یافتہ ممالک میں شامل کردیا۔ جنرل پاک، ماؤزے تنگ اور اسٹالن کو لوگ آج بھی محبت اور خلوص سے یاد کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں موجودہ جمہوری حکومت نے ملک کو تباہ کردیا ہے گویا ”اب جو حالت ہے وہ تو کبھی ایسی نہ تھی“۔

 عوام اس جمہوریت اور ایسے جھوٹے، چور، منافق اور بے رحم حکمرانوں پر صبح شام لعنت بھیج رہے ہیں۔ جہاں تک ”محب وطن جنرلوں“ کی بات ہے تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ یہ اُسی وقت تک محب وطن رہتے ہیں جب تک وہ سرحدوں اور اپنی یونٹوں میں رہتے ہیں مگر جب وہ اسلام آباد کے ایوانوں کی عیاشی کے عادی ہوتے ہیں بالکل ہی مختلف انسان ہوتے ہیں۔ سیاست دانوں سے بڑھ کر عیاشی، رشوت ستانی، اقربا پروری عروج پر پہنچ جاتی ہے اور بات وہی ہوتی ہے کہ عوام کو اس تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ”بیل گیا اور خر آیا“۔
اور اب صرف عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ الطاف حسین کو آمریت کے حامی اور طرفدار بنتے ہوئے جمہوریت کیوں یاد نہیں آئی۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اُنہوں نے اس ملک پر موجودہ کرپٹ طبقہ مسلط کرتے وقت اور زرداری کو صدر بنانے کا سب سے پہلے مشورہ کیوں دیا۔ جب زرداری، گیلانی اور دوسرے حواریوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا، بیروزگاری، مہنگائی اور بجلی کے بحرانوں کو آسمان تک پہنچا دیا تو اب ان کو برائیاں نظر آرہی ہیں۔ جب بھوکے، بیروزگاروں اور غریبوں پر لاٹھیاں برسنے لگی ہیں عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے اس وقت ان کو تکلیف ہو رہی ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ جمہوریت میں عوام کی خواہشات کے مطابق اور آمریت میں ڈکٹیٹروں کی خبط الحواسی کے مطابق سرکاری کام کئے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال
کی ہمہ دانی قابلیت، فلسفہ، رہبرانہ صلاحیت کا ہر پاکستانی معترف ہے۔ لوگ ان کو مفکر پاکستان کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بارے میں ان کا یہ شعر نہایت معنی خیز ہے۔
گریز اَز طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
”یعنی اے تجربہ کار اور عقل مند غلام جمہوری طرز حکومت سے دور رہ، کبھی دو سو گدھوں کی عقل و فہم ایک انسانی عقل و فہم و تدبّر کے برابر نہیں ہوسکتی“۔ ایک اور جگہ ”جمہوریت“ نامی قطعہ میں فرمایا ہے۔
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
ایک جگہ علامہ
 نے سلطانی جمہور کی تعریف کی ہے۔ جمہوری طرز حکومت کی نہیں:
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
ان کا مطلب عوام کی حکمرانی ہے، نام نہاد جمہوریت جیسی منتخبہ سیاسی گٹھ جوڑ والی حکومت نہیں ہے۔ مغربی ممالک میں صدیوں سے جمہوری نظام قائم ہے اور تعلیم کی موجودگی میں کامیاب رہی ہے۔ مسلم ممالک میں ایشیائی ممالک میں خاص طور پر جمہوریت ایک مذاق ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں خاندانی ڈکٹیٹر شپ چل رہی ہے۔ وہی لوگ بگھی میں بیٹھے رہتے ہیں اور عوام اس کے گھوڑے بن کر اس کو کھینچتے رہتے ہیں۔ بڑی بڑی پار ٹیاں خود آمرانہ طرز عمل اختیار کئے ہوئی ہیں جب پارٹی میں ہی جمہوریت نہیں تو حکومت میں کہاں سے آئے گی۔ ”چوں کفراز کعبہ بر خیز و کجا باشد مسلمانی“ یعنی جب کعبہ سے کفر پیدا ہو تو مسلمانیت کہاں رہے گی“۔ خلاصہ یہ ہے کہ بہتر حکومت کے لئے لازم ہے کہ خواہ فرد ہو یا جماعت نیک نیتی، ایمانداری، اخلاص اور انصاف لازمی شرط ہیں۔ بد قسمتی سے موجودہ حکمران ان تمام خصوصیات سے مبّرا ہیں۔ میں نے اس ملک میں کبھی حکمرانوں کے بارے میں ایسے گندے، غلیظ، ہتک آمیز، سخت الفاظ نہیں سنے تھے اور حقیقت یہ ہے عوام کی اکثریت ان الزامات پر پورا یقین کرتی ہے۔

 صدر کا ماضی جس طرح کا ہے وہ سب پر عیاں ہے مگر عوام کو جو بہت دُکھ دینے اور غصّہ دلانے والی بات ہے وہ گیلانی کا روّیہ ہے جو شخص خود کو غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی  کی اولاد میں سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کو منافقت کرنے اور جھوٹ بولنے میں قطعی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے بین الاقوامی اُمور کے سابق سربراہ نے چند دن پیشتر ٹی وی پروگرام میں گیلانی کو ان ہی القاب سے مخاطب کیا تھا۔ گیلانی کا سیّد زادہ ہونے اور دوسروں پر برتری حاصل ہونے کا دعویٰ ایسا ہی ہے جیسا کہ مشرف نے سیّد زادے ہونے کا اور کئی بار خانہ کعبہ میں اور روضہ مبارک میں داخل ہونے اور خود کو سب سے برتر ہونے کا دعویٰ کیا تھا حالانکہ فوج کے افسران اس کے سیاہ کرتوتوں سے پوری طرح واقف تھے اور اس کے کردار کی کہانیاں زبان زد تھیں۔ پچھلے تقریباً ایک سال سے این آر او اور اٹھارہویں ترمیم کیسوں کی سماعت نے پوری قوم کو اغوا کیا ہوا ہے۔ دونوں جانب سے لاتعداد وُکلاء پیش ہوئے ہیں اور عدالت روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ نہ ہی میں نے قوانین پڑھے ہیں اور نہ ہی ایسے مقدمات کے بارے میں چلتے پھرتے تبصرہ کرنے کی جسارت کر سکتا ہوں۔ البتہ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اسلامی تاریخ کے سنہری انصافی فیصلوں سے واقف ہوں۔ کیا ہم حضرت عمر ، حضرت عمر بن عبدالعزیز  ، خلیفہ ہارون الرشید، خلیفہ مامون الرشید، خلیفہ عبدالمالک، محمود غزنوی، جلال الدین خوارزم شاہ، علاؤ الدین خلجی کے دور حکومت میں انصاف کی فراہمی کو بھول سکتے ہیں۔ اس وقت نہ ہی تاخیر اور نہ ہی تفریق ہوتی تھی۔

آج کل کی وسیع بنچوں کے برعکس اس وقت صرف ایک قاضی ہوتا تھا اور وہ ایک سماعت میں فیصلہ دے دیتا تھا۔ کسی کو کبھی اس کی جانبداری اور اہلیت پر انگلی اُٹھانے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ قاضی کے سامنے حضرت عمر اور ایک حبشی غلام برابر تھے۔ قاضی بیانات سے نہیں فیصلوں سے عزّت و احترام کرتے تھے۔ موجودہ دور میں سعودی عرب اور چین میں نظام انصاف بہت جلد اور صحیح مل جاتا ہے۔ ان دونوں ممالک میں ایک ہی یا زیادہ سے زیادہ دو سماعتوں کے بعد فیصلہ ہوجاتا ہے۔ مجرم سزا سے نہیں بچ سکتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں چھوٹے چھوٹے مقدمے برسوں چلتے رہتے ہیں اور کمزور اور غریب کو انصاف نہیں ملتا۔ جہاں دیکھئے مصلحت ہی نظر آتی ہے۔ ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ مشرف کے صدر بننے کی اہلیت کا مقدمہ سنا جا رہا تھا وہ ایک سرکاری ملازم تھا۔ کئی ماہر قوانین نے کہا کہ اس کا فیصلہ آدھے گھنٹہ میں ہونا چاہیئے تھا۔ مقدمہ کو خواہ مخواہ اتنا طول دیا گیا کہ اس نے کاری ضرب لگا کر ملک کی بنیادیں ہلادیں اور عدلیہ کو اپاہج کردیا۔ اسی طرح آجکل بھی لاتعداد مقدمے ایک یا دوسری وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔ عدالت میں خوب بحث ہوتی رہتی ہے۔ گرما گرم بیانات آتے ہیں اور پھر سماعت نہایت آسانی سے چند ہفتوں کے لئے ملتوی کردی جاتی ہے۔

 ہماری بدقسمتی ہے کہ اس مملکت خداداد پاکستان میں انصاف عنقا ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں آپ حضرت عمر  کو کھلے عام للکار سکتے تھے۔ آجکل حکمراں دس بارہ گاڑیوں اور تیس چالیس گارڈکے ساتھ آپ پر حقارت کی نگاہ ڈال کر نکل جاتے ہیں۔ میں نے خود خدا جانے کتنی بار اخبارات میں پڑھا اور ٹی وی پر سُنا کہ ججوں کی ہدایت کے باوجود پولیس افسران اور سرکاری اہلکار نہ حاضر ہوتے ہیں اور نہ ہی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور معاملہ ”اگلی “ پیشی پر ٹل جاتا ہے۔ اگر جج صاحبان مصلحتی روّیہ ترک کردیں اور فوراً فیصلے سنا دیں تو لوگوں میں ان کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت نہ ہو۔ موجودہ حکومت نے جس طرح عدلیہ کے فیصلوں کا مذاق اُڑایا ہے وہ ہمارے لئے بُری خبر ہے۔ لوگ کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں اور عدلیہ پر طعنہ زنی کررہے ہیں۔

آہستہ آہستہ عوام بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عدلیہ نے مصلحتانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ وزیر قانون نے عدلیہ اور قانون کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ ہتک عدلیہ کے تحت ایک فیصلہ میں ان کی طبیعت ٹھیک کی جاسکتی ہے۔حقیقت یہ ہے اور یہ کہتے بہت دُکھ ہوتا ہے کہ ہمارے قائد اعظم کے ملک میں ججوں اور عدلیہ سے زیادہ ایس ایچ ا و اور پٹواری کے احکامات کی عزّت اور سنوائی ہے۔ مجھے ابھی بھی اپنے پرانے جج صاحبان، جسٹس حمود الرحمن، جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس شبیر، جسٹس صمدانی، جسٹس کارنیلس اور جسٹس ابرار حسن خان یاد آتے ہیں۔ وہ کیا سنہری وقت تھا۔ لوگ کانپتے تھے ان کے سامنے پیش ہوتے وقت۔ایک عرض یہ ہے کہ معذرت خواہانہ لہجہ میں ٹھیک فیصلہ دینا یا سچ بولنا غلط فیصلے اور جھوٹ بولنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ قرآن اور احادیث بلا خوف و خطر اور صحیح انصاف کرنے کے احکامات سے پُر ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اب احکام الٰہی اور احادیث الماریوں کی زینت بن کر رہ گئے ہیں۔
نوٹ:گزشتہ کالم میں کتاب ”نقوش پائے مصطفےٰ“کے بارے میں لکھا تھا ،درستگی کرلیں، یہ ابو محمد عبدالمالک کی تصنیف ہے جبکہ تقریظ اور پیش لفظ مولانا محمد مکی حجازی کی ہے۔

 

 

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution