Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Sami_Malik
Full Name: Sami Malik
User since: 14/Oct/2006
No Of voices: 1705
 
 Views: 866   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  


جیلوں میں کشمیری قیدی غیر محفوظ کیوں ؟

نومبر2017ء کو دلی کی تہاڑ جیل کے جیل نمبرایک کے ’’وارڈسی اور وارڑ ایف‘‘میں سیکورٹی پر مامور اہلکاروں کے ذریعے18قیدیوں کی بے تحاشا مارپیٹ کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب کشمیر سے نئی دلی تک کے تمام سرکاری اہلکار یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ہیں کہ حکومت ہند حریت کانفرنس سمیت تمام تر ’’اسٹیک ہولڈرس‘‘کے ساتھ تمام امور پربلا شرط بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق تہاڑ کی جیل نمبر ایک کی حفاظت پر تامل ناڈو پولیس کی سپیشل سیل سے وابستہ اہلکار مامور ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ فوری ریسپانس ٹیم کے اہلکاروں نے بھی نظر بندوں کو بلا وجہ جانوروں کی طرح مارا پیٹا۔زخمی قیدیوں میں بیشتر کشمیری نظر بند ہیں جن میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین احمدکے فرزند سید شاہد یوسف کا نام قابل ذکر ہے۔اس واقعہ میں شاہد سمیت کئی کشمیری قیدی بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔واقعہ کے دوروز بعد یعنی23نومبر کو سید شاہد یوسف کے وکیل ایڈوکیٹ جواہر راجا کے معاون وکیل ایڈوکیٹ چنمے کنوجہ جب سید شاہدیوسف سے ملاقات کرنے کیلئے22نومبر کو تہاڑ جیل گیا تو وہاں انہیں واقعہ کا علم ہوا۔واپسی پر انہوں نے دلی ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ عرضی دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعہ کی تفاصیل بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے بطور شاہد یوسف کی خون میں لت پت بنیان بھی پیش کی۔جس پردلی ہائی کورٹ کی قائمقام چیف جسٹس جسٹس گیتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے قیدیوں پر جیل سٹاف کے حملے اور مارپیٹ کو انتہائی پریشان کن اور سنجیدہ نوعیت کا قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کیلئے خصوصی جج برجیش سیٹھی کی سربراہی میں سہ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دیدی ۔ جس نے جیل کے دورے کے دوران نہ صرف قیدیوں سے بات چیت کی بلکہ جیل نمبر ایک میں نصف سی سی ٹی وی فوٹیج کا بھی جائزہ لیا۔کمیٹی نے عدالت کے سامنے جو عبوری رپورٹ پیش کی ہے۔ اس میں قیدیوں کی یادداشتوں کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیج بھی شامل ہے۔کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت قیدیوں کی طرف سے کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی ہے۔ فوٹیج میں جیل اہلکاروں کو مختلف اوقات میں مختلف وارڈوں میں داخل ہوکر قیدیوں کو جانوروں کی طرح مارپیٹ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔28نومبرکے روز ڈویڑن بینچ نے مفاد عامہ عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے ایک سیشن جج کی سربراہی میں تین رکنی ٹیم تشکیل دی جواب معاملے کی نئے سرے سے تحقیقات کرے گی۔ ٹیم کو فوری طور پر رپورٹ ڈویڑن بینچ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
جموں و کشمیر کی حکومت نے معاملہ مرکزی داخلہ سیکریٹری راجیو گوبا کے ساتھ اٹھایا۔ ہوم سیکریٹری نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائے گی اور جس نے بھی جیل مینول کی خلاف وارزی کی ہوگی اسکے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔تہاڑ جیل میں قیدیوں کے بنیادی اور قانونی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ پہلے ہی 27نومبر کو دلی ہائی کورٹ میں بھی زیر بحث آ چکاہے جس کے دوران قیدیوں کو جسمانی ٹارچر کے الزامات کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم دیاجا چکا ہے۔ہائی کورٹ نے 21نومبر کی شب جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویشناک کہتے ہوئے واقع کو قطعی طور بلا جوازقرار دیکرپریشان کن ریمارکس دیتے ہو ئے کہا کہ ’’اگر یہ دلی کی صورتحال ہے تو دیگر جگہوں میں کیا ہوگی‘‘۔عدالت نے کہاکہ’’ معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے‘‘۔ڈویڑن بینچ نے ٹرائل کورٹ کے ڈسٹرکٹ جج کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جنہیں اس بات کی ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ تہاڑ جیل میں جیل حکام کی جانب سے 18قیدیوں کی مبینہ مارپیٹ کی تحقیقاتی رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کرے۔دلی ہائی کورٹ کا ڈویڑن بینچ مفاد عامہ کی ایک عرضی کی سمات کررہا تھا جو صلاح الدین کے بیٹے کے وکیل ایڈوکیٹ چنمے کنوجہ کی طرف سے دائر کی گئی ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ انکے موکل شاہد یوسف، جنکی تحقیقات این، آئی، اے کررہی ہے، اور جس کا کیس زیر تفتیش ہے، کو جیل حکام نے بلا وجہ شدید مارا پیٹ کی ہے۔ایڈوکیٹ جواہر راجا نے درخواست کی کہ جیل سٹاف نے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جس میں شاہد یوسف بھی تھا،جس کے باعث قیدیوں کو شدید چوٹیں آئیں ہیں۔
سری نگر سے شائع ہونے اکثر اخبارات نے تہاڑ جیل سے تاریخ پیشی پر لائے گئے سوپور کے ایک پچیس سالہ قیدی کومقامی عدالت میں پیش کرنے کی تفاصیل 29نومبر2017ء کو شائع کرتے ہو ئے لکھا ہے کہ عدالت کے حکم پر قیدی کو سب ڈسٹرکٹ اسپتال سوپور منتقل کیا گیا اس لئے کہ دلی کی تہاڑ جیل میں21نومبر کو اٹھارہ زخمی کشمیری قیدیوں میں بٹہ پورہ سوپور کا احتشام احمد ولد فاروق احمد بھی شامل ہے۔25سالہ احتشام کو پیر کے روز دلی سے سرینگر منتقل کرکے سابق حزب کمانڈر عبدالقیوم نجار سے جڑے ایک کیس کے سلسلے میں سیشن کورٹ سوپورکی عدالت میں پیش کیا گیا۔عدالت میں احتشام کے وکلا نے تہاڑ جیل میں پیش آئے واقعہ کے بارے میں جانکاری فراہم کی جس میں مذکورہ قیدی سمیت کئی کشمیری نظر بند زخمی ہوئے ہیں۔عدالت نے پولیس کو ہدایت دی کہ احتشام کا علاج و معالجہ سوپور اسپتال میں کرایا جائے کیونکہ اس کے جسم پر زخموں کے واضح نشانات موجود ہیں۔عدالتی حکم پر مذکورہ نوجوان کو سب ڈسٹرکٹ اسپتال سوپور میں داخل کرایا گیا ہے۔قیدی کا کہنا ہے کہ 21 نومبر 2017ء رات نو بجے ہائی سکیورٹی وارڈ جیل نمبر ایک تہاڑ میں تامل ناڈو سپیشل پولیس جو کہ خصوصی سیکورٹی اور سرچنگ کے لیے تعینات ہے ان بلاکوں میں یہ کہہ کر’’کہ ہم نے تلاشی لینی ہے‘‘ گھس گئے جن بلاکوں میں کشمیری قیدی مقید ہیں ۔تامل ناڈو پولیس نے اندر گھسنے کے بعد قیدیوں سے کہا کہ اب آپ سب باہر نکلواور ہم سبھی قیدی بلاکوں سے باہر نکل آئے تو انہوں نے تلاشی شروع کی۔ لیکن ان کی حرکتوں اور تیورسے لگ رہا تھا کہ آج تلاشی نہیں بلکہ یہ کچھ اور کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے حاکم نامی ایک مسلمان ’’غیر کشمیری قیدی جو کہ اعظم گڑھ یو،پی کا رہنے والا ہے‘‘ کا تکیہ کور جو کہ کپڑے کا تھا اور حاکم نے خود سلا تھا، یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے لیا کہ اس نوعیت کی چیزیں جیل میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے ۔قیدیوں کا کہنا ہے کہ ایک دن پہلے بھی اسی طرح کی تلاشی ہوئی تھی اور اس دن بھی یہ لوگ تکیے کور اپنے ساتھ لے جا رہے تھے، لیکن کشمیری قیدیوں نے ان سے کوئی بات نہیں کی بلکہ دلی جیل سٹاف کے افسر سے بات کی کہ یہ تکیہ کور کیوں لے جا رہے ہیں حالانکہ یہ کوئی ممنوع چیز نہیں ہے تو دلی جیل سٹاف کے افسر نے بھی سرچنگ پارٹی کو تکیہ کور ہتھیانے سے منع کیا اوران سے کہا کہ یہ کوئی ممنوعہ چیز نہیں ہے، اس وقت سرچنگ پارٹی نے تکیہ کور واپس کیا اور غصہ کی حالت میں واپس چلے گئے۔
قیدیوں کے مطابق ’’تلاشی پارٹی‘‘نے دوسرے روز پھر آکر ایک قیدی سے ’’تکیہ کور‘‘لینے کی کوشش کی تو ایک کشمیری قیدی نے اعتراض کرتے ہو ئے تلاشی پارٹی کے ذمہ دارسب انسپکٹر ایس مٹھو پانڈے کے پاس جا کر یہ کہا کہ ’’قیدی حاکم‘‘کو یہی کور جیل حکام نے رکھنے کی اجازت دیدی ہے لہذا آپ بھی مجھے مجھ سے چھینا گیا کورواپس کیجئے۔ ایس مٹھو پانڈے نامی اس آفیسر نے کہا کہ میں یہ ’’اجازت نامہ ‘‘نہیں مانتا اور سرچنگ پارٹی کو حکم دیا کہ تمام کشمیری اور باقی مسلمان قیدیوں کے تکیہ اور تکیہ کور ضبط کیے جائیں۔ اس پر ’’احتشام ‘‘نامی کشمیری قیدی نے اعتراض کرتے ہوئے اس افسر سے بس اتنا کہا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ ہمیں کھل کر بتائیے ،اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں تو بھی واضح کریں، اس بات کو سننے کے بعد اس افسر نے اپنے وائرلیس پر دس پندرہ سکینڈ تک اپنی تامل زبان میں کچھ کہاجو قیدیوں کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ پھر وہ کشمیری قیدی احتشام کی طرف متوجہ ہو کر غصہ میں اپنی زبان میں گالیاں اور دھمکیاں دینے لگا اتنے میں دوسرے بلاک سے ایک کشمیری قیدی مشتاق احمد لون باہر آیا اور اس نے کہا کہ چلاؤ مت!اتنے میں جیل کا الارم بجنے لگا۔ واضح رہے کہ جیل الارم تب بجایا جاتا ہے جب جیل حکام کو لگتا ہے کہ ہم قیدیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتے ہیں، اور اس وقت قیدیوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور اگر تشدد کے دوران کوئی قیدی جان سے بھی چلا جائے تو ان سے کوئی پوچھ نہیں سکتاہے۔ الارم بجتے ہی کشمیری اسیران اپنے بلاکوں میں چلے گئے، دیکھتے ہی دیکھتے سو سے زائد تامل ناڈو پولیس اہلکار اندر گھس گئے اور ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا آپریشن کرنے آ رہے ہیں، اور یہ بھی صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ سب کچھ پری پلان ہو رہا کیونکہ وہ بالکل تیار تھے اور وہ انتظار کر رہے تھے کہ کب ہمیں موقع ملے اور ہم ٹوٹ پڑیں، اس کے بعدپولیس والوں نے ’’بے بس اور گنتی کے چند کشمیری اسیران‘‘ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آؤ '' اب لڑو '' اور انہوں نے لکڑی اور فائبر کے ڈنڈوں سے اندھا دھند لاٹھی چارج کیا اور کشمیری اور باقی مسلمان قیدیوں کے سروں پر وار شروع کیے۔ اس سے کئی قیدی بری طرح زخمی ہوگئے اور احتشام کے سر بھی اپنی لاٹھیاں برسائی گئی جس سے وہ بے ہوش ہوگیااور سر کو بچاتے بچاتے ان کابائیں ہاتھ بھی فریکچر ہو گیا ۔بے ہوش ہونے سے تھوڑی دیر پہلے انھیں یوں محسوس ہوا کہ ان کے دل کی دھڑکن رک گئی ہے، پھر انہوں نے کلمہ طیبہ کا ورد کیا تو اس کے بعد وہ بے ہوش ہوگیا۔
شاہد یوسف ا بن صلاح الدین جو کہ دوسرے بلاک میں قید ہے کوبھی بری طرح مارا گیا اور ان کو بھی سر پر گہری چوٹیں آئیں۔جانے سے قبل سفاک تامل پولیس کے اہلکاروں نے بے ہوش ہوئے احتشام کے سر پر پانی سے بھری تین چار بالٹیاں انڈیل دیں اور چہرے پر لاتیں مارتے ہوئے اور داڑھی سے گھسیٹ کر آگے تک لے گئے ۔ پولیس اہلکار کے ہاتھوں میں داڑھی کا گھچا آیا جواس نے کوڑے میں پھینکا ۔اس واقعہ کے بعد ’’فوری ایکشن فورس کی ٹیم ‘‘کے سو سے زائد لوگ بلاکوں میں گھس گئے، جنہوں نے اندر گھستے ہی اندھا دھند لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں۔ قیدیوں کے بیان کے مطابق احتشام کشمیری نامی قیدی جو کہ بلاک کے مین گیٹ پر بے ہوش پڑا تھافورس کے لوگ اس کے اوپر سے گزرتے ہوئے آئے اورباقی قیدیوں کو بے دردی سے پیٹا اور واپس نکل گئے۔ اس شر انگیز ظالمانہ اور وحشیانہ کاروائی کے دوران ایک عجیب بات یہ بھی نوٹ کی گئی کہ جب سرچنگ پارٹی بلاک ایف میں گھسی تھی جہاں کل بارہ قیدی تھے، ان میں گیارہ مسلمان اور ایک’’ ہندوآشو توش مشرا‘‘ تھا کا بیان ہے کہ جب سرچنگ پارٹی قیدیوں کو مارنے کے لیے آگی بڑھی اور میری طرف بھی آئے تو پہلے مجھے ایک دو لاٹھیاں بازوں پر پڑی میں نے اپنا ہاتھ دکھایا جس پر ہندو علامتی دھاگہ بندھا ہوا تھاتوانہوں نے وہ دیکھتے ہی مجھے چھوڑ دیا اور سائیڈ پر کر دیا۔ تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں پر یہ کوئی پہلا جان لیوا حملہ نہیں ہے بلکہ اسے پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرح کے خطرناک حملے کشمیریوں پر ہو چکے ہیں جن میں کشمیری قیدی بڑی مشکل سے اپنی جان بچا پائے ۔27مارچ2014ء کے دن کشمیری نظر بندوں توصیف احمد ، پیر احتشام الحق اور محمد رفیق شاہ کے علاوہ انجینئر مفتی محمود پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں ان چاروں کی جان بہت مشکل سے بچ گئی۔ جس پر حریت خانفرنس نے عالمی ریڈکراس کمیٹی کے ذمہ داروں سے پر زور اپیل کی کہ وہ قیدیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کا فوری نوٹس لے لیں ۔حریت کانفرنس نے اپنے بیان میں قیدیوں پراس قاتلانہ حملے کا الزام ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل مسٹر گوسوامی عائد کرتے ہو ئے کہا کہ یہ حملہ براہ راست اس کی ہدایات پر کیا گیا ہے۔اسی طرح 5اکتوبر2017ء کے روز کشمیر کے اخبارات میں تہاڑ جیل میں قیدیوں پر ہو ئے جان لیوا حملے کی مزمت کی گئی جس میں جاوید احمد اور محمد شفیع نامی دو کشمیری قیدی شدید زخمی ہو ئے تھے ۔تہاڑ جیل کے متعلق مرکزی حکومت کا یہ دعویٰ کہ یہ ہندوستان کا محفوظ ترین جیل جھوٹ کا پلندہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ 12اگست2015ء کے دن جیل میں ہنگاموں سے چار قیدیوں کی موت واقع ہو ئی تھی ۔اسی طرح جیل سے باہر عدالتوں میں پیشیوں پر بھی یہی حال ہے کشمیر کے معروف حریت رہنما اور ضمیر کے قیدی شبیر احمد شاہ 24اگست2017ء کے روز اس وقت بہ مشکل جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جب بے وردی مشکوک افراد نے انہیں عدالت کے احاطے میں قتل کرنے کی کوشش کی ۔2010میں بار ایسو سی سیشن کے صدر ایڈوکیٹ میاں قیوم پر بھی کٹھوعہ جیل سے باہر لے جاتے ہو ئے حملہ کیا گیا ۔جموں کے جیلوں کا حال بھی غیر ریاستی جیلوں سے بہتر نہیں ہے جن میں کٹھوعہ ،ہیرانگر اور کوٹ بلوال سب سے زیادہ بدنام قرار دینے کے قابل ہیں ۔کورٹ بلوال جیل میں ثناء اللہ رانجھے نامی سترہ برس سے قید کاٹ رہے ایک پاکستانی قیدی کو 3 مئی 2017ء کو ہنگامہ آرائی کے بیچ بے دردی سے قتل کردیا گیا ۔15جولائی1999ء کو حرکت الانصار کے کمانڈر انچیف ’’سجاد افغانی‘‘کو بھی کوٹ بلوال جیل میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ۔ 
جموں کے جیلوں میں قید کاٹ چکے ہزاروں قیدی آج بھی ’’ونود ‘‘نامی ظالم جیل سپرنٹنڈنٹ کے مظالم بیان کرتے ہو ئے رونگٹھے کردینے والے واقعات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح ایک معمولی جیل آفیسر نے کشمیری قیدیوں کا جینا دوبھر کردیا تھا حتیٰ کہ اس کو مذہبی رسومات ادا کرنے اور اسی طرح قیدیوں کوپڑھنے لکھنے سے بھی سخت الرجی تھی ۔اور تو اور ’’رجنی ‘‘نامی خاتون سپرنٹنڈنٹ نے ونود کو بھی اپنے غنڈہ گردی سے پیچھے چھوڑ دیا تھا حد یہ کہ قیدیوں کی باربار شکایات کے باوجود بھی نا ہی حکمران اور نا ہی عدالتیں اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس لے رہی تھیں ۔چند برس پہلے ’’بار ایسوسیشن‘‘کے وکلاکو مظالم ڈھانے والے سپرنٹنڈنٹ کی موجودگی میں مشتاق الاسلام نے ادھم پور جیل میں اپنے مظالم کی کہانی نہ صرف سنائی بلکہ وہ شدید چوٹیں بھی دکھائیں جو پار پیٹ سے ان کے سر میں لگی تھیں ۔کشمیر کے اخبارات نے چند روز قبل ایک خبر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا کہ کٹھوعہ جیل میں ’’عبدالصمد انقلابی ‘‘نامی مشہور قیدی کو جیل حکام نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انتہائی خراب حالت میں اس کو جموں ہسپتال منتقل کرنا پڑا ۔گویا اب یہ روز کا سلسلہ ہے جس پر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ایک طرف وہ مذاکرات اور امن کے قیام کی بات کرتی ہے وہی دوسری جانب جیلوں میں بند ہزاروں قیدیوں کے مسائل سے سے لاپروائی برت رہی ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ جیلیں ہیں یا مقتل گاہیں ؟جہاں لے جا کر کشمیریوں کو قتل کرنے یا تشدد کا نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ایسے میں کیا مذاکرات کے حوالے سے بظاہر’’ سنجیدگی ‘‘دکھانے والی حکومت آزادی پسند لیڈران کو مطمئن کر کے میز پر بٹھانے میں کامیاب ہو گی ؟جو پہلے ہی مذاکرات اور سیاسی عمل سے بد دلی کا مظاہرا کر چکے ہیں کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ جب کسی بھی فرد کو سیاسی الزامات کے تحت جیل میں بندرکھتی ہے تو وہ اس کے مال و جان اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے ۔

 

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution