"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining
what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Latest Top 3
No Article has been posted in last 30 days
Views: 796
Replies: 0
Share with Friend
Post Comment
سودمافیاکے خوف سے
خودکشیوں کی بولتی داستان
غلام مرتضیٰ باجوہ ایوان اقتدارسے
دین اسلام انسان کی خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر ملک پاکستان کی مجموعی صورت
حال کا جائزہ لیں تو قومی وبین الاقومی اداروں کے سروے رپورٹس میں بتایا جاتا ہے
کہ دن بدن مہنگائی، بدامنی، دہشت گردی، لاقانونیت،کرپشن، روزگار کا حصول اور
معاشرت میں بے حسی اس بات کی دلیل ہے کہ خودکشی کے رجحان کو فروغ مل رہا ہے،صرف
اور صرف تمام تر الزمات بے بس خودکشی کرنے والے انسانوں پر ڈال کر رپورٹ مکمل کرلی
جاتی ہے ۔کبھی بھی اس بات پر غورنہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی رپورٹ کا حصہ بنایا
گیا ۔ کہ غریب ،غریب تر اورامیر،امیرتر کیوں ہوتا چلا جا رہا ہے۔دولت چند ہاتھوں
میں سمٹ کررہ گئی ہے اور کیوں ملکی معیشت تباہی کی طرف گامزن ہے۔برسراقتدارلوگوں
کو تو صرف سیاسی معاملات عزیز ہیں ۔ان کی نظروں میں خودکشی کو ئی مسائل تھانہ
ہے۔کیونکہ خودکشی کرنے والے مجرم اور اسباب پیداکرنے والے معززین ہیں،عالمی اداروں
کی رپورٹ میں بار بار بتایا جارہاہے کہ اگر خودکشیوں کے معاملے پر حکومتی سطح پر
توجہ نہ دی گئی تو آنے والے چند سالوں میں یہ مسئلہ کسی بھی بحران سے کم نہیں ہوگا
۔
خودکشی کا اسباب اور خزانے کو نقصان کے ذمہ دار معززین ’’ سود اور قسط مافیا‘‘ کے
بارے میں وفاقی اور صوبائی اراکین نے کوئی قراردادپیش کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ۔اس
کی اصل وجہ کیا ہے یہ تو ماہر معاشیات ہی بیان کرسکتے ہیں۔دوسرے جانب ایک اندازکے
مطابق پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے ’’ سوداور قسطوں ‘‘ کا کاروبارکرنے والوں
کی تعدادایک لاکھوں کے قریب ہے جن کے گاہکوں کی تعداد4کروڑسے تجاویز کرچکی ہے
اسمگلنگ کی جانے والی سالانہ 10سے 15ارب روپے کی مختلف مصنوعات ’’ ڈبہ بند غذائی
اجناس ، سگریٹ ، ٹیکسٹائل مصنوعات ، چمڑے کی مصنوعات ، کاغذ اور گتہ ، ربڑ، پلاسٹک
، پٹرول کی مصنوعات ، ٹائراور ٹیوب ، نان میٹالک منرل مصنوعات ،بنیادی مصنوعات
،دھاتی مصنوعات، مشینری ، آٹوموبائل وغیرہ ‘‘ شامل ہیں ، آسان قسطوں کے نام پر
فروخت کی جاتی ہیں۔جو غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں قسطوں پر دی جاتی
ہیں۔قسط کی عدم ادائیگی پر خواتین ، مردوں کو ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بھی
بنایا جاتاہے۔حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی سے یہ مسئلہ بحران کی شکل اختیارکرنے کے
ساتھ ساتھ ملکی معیشت کی تباہی کا بھی مزید باعث بنے گا ۔ خودکشیوں کا سیلاب لائے
گا ۔
ماہر ین کا کہنا ہے کہ اس نظام نے دنیا کوجکڑ لیاہے، دنیا کہ ننانوے فیصد لوگوں کے
پاس کل دولت کا ایک فیصد جبکہ ایک فیصد کے پاس کل دولت کا ننانوے فیصد ہے۔اس فتنے
کی سرکوبی کے لیے اوراس پر نقب زنی کے لیے اس کی اصلیت جاننا ضروری ہے۔اسلام کا
نظام معیشت وقانون اورسرمایہ دارانہ نظام کا قانون دو الگ الگ اورمتضاد تہذیبیں
ہیں۔ان دونوں کا طرزِ معیشت اوران کا طرزِ معاشرت ان کا نظام حکومت اوران کا
مالیاتی نظام ایک دوسرے سے بالکل مختلف اورجداگانہ ہیں۔مثلاً اللہ تعالیٰ نے سود
کو واضح الفاظ میں حرام قراردیا ہے حتیٰ کہ اسے اللہ اوراس کے رسول ﷺ سے جنگ کے
مترادف قرار دیا ہے۔اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث کے سنہری اصول ہیں اس کے برعکس
سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں خود ساختہ انسانوں کے بنائے ہوئے قواعدو قوانین پر
ہیں۔جس میں سرمایہ داروجاگیردار مل کراپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے
ہیں اورعوام پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرتے ہیں۔ان ٹیکسوں کے ذریعے دولت کھینچ کر
خزانے میں لے جاتے ہیں اورخزانے پر بھی سرمایہ داروں اورجاگیرداروں نے قبضہ جمایا
ہوتا ہے۔خزانے سے ناصرف تنخواہیں بلکہ اپنے لیے بہت سی مراعات بھی جاری کروالیتے
ہیں۔ بھاری بھاری قرضے لے کر معاف کروالیتے ہیں اور ترقیاتی کام کراتے وقت کمیشن
سے اپنے پیٹ کو بھرنے کی سعی میں مگن رہتے ہیں۔اس طرح طبقاتی نظام وجود میں آتا ہے
جس کی بنیادپرامیر شخص امیر سے امیر تر ہوتا چلا جاتاہے جبکہ غریب شخص غربت کی
لکیر کراس کرتا چلا جاتا ہے۔
رواں سال میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن
کا شکار ہے اور نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔خود کشی کے 673 کیسز
پنجاب، 645 سندھ، 121 خیبر پختونخوا اور 24 کیسز بلوچستان میں ہوئے۔ ڈپریشن کا
تناسب 34 فیصد تک بتایا جاتا ہے، یعنی ہر تیسرا آدمی ڈپریشن کا شکار ہے۔ ایک اور
رپورٹ میں یہ تناسب 44 فیصد تک بتایا گیا پاکستان میں مردوں سے زیادہ خواتین کو
ڈپریشن کا شکار بنا دیا۔ اسکے خیال میں 5 کروڑ پاکستانی عمومی ذہنی امراض کا شکار
ہیں اور ان میں 57.5 خواتین اور 25 فیصد مرد شامل ہیں۔ ڈپریشن کی بڑی وجوہ میں
بیروزگاری، بیماری، غربت، بے گھر ہونا اور خاندانی تنازعات شامل ہیں۔
ضرورت اس امرہے کہ غیر قانونی طریقہ کاروبار سے ضرورت مندوں کو کروڑوں کا چونا
لگانے والے بے خوف و خطر اکام کر رہے ہیں۔غیر قانونی طریقہ کاروبار کا کوئی کا
قانون نظر نہیں آتا،سود خور کے مظالم سے کئی لوگوں کے گھر اجڑ گئے، خود کشی کیسوں
کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرکے ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں قرار واقعی سزادی
جائے۔خودکشیاں کے معاملے اور خود سود مافیا کے خلاف علماء اکرام ، معززین وکلاء ،
سیاسی ، سماجی رہنماء اور صحافی بھی کردار اداکریں۔ پاکستانی قوم کے محافظ قابل
احترام وزیر اعظم ، صوبائی وزراء اعلیٰ اور عدلیہ کے معزز ترین ججز صاحبان سے
استدعا ہے کہ سود خوروں کی دھمکیوں سے تنگ آکر خود کشیاں اور ان کے بڑھتے ہوئے
رحجان کا از خود نوٹس لیں۔ تاکہ مزید گھروں کو لٹنے سے بچانے کیلئے آہنی ہاتھوں سے
نمٹنے کے اعلانات کا عملی ثبوت دیں۔
|
No replies/comments found for this voice
|