کرپشن، کردارکشی کا خطرناک کھیل آخر کب تک۔۔؟
غلام مرتضیٰ باجوہ ایوان اقتدارسے
سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے کافی عرصے سے ایک دوسرے کی کردارکشی کا خطرنا ک
کھیل کھیلا جارہاتھا۔لیکن اب تو حد ہی ہوچکی ہے کیونکہ اب اس طوفان سے بچانا ہر معززشہری
کو مشکل ہوچکا ہے۔ملک بھر میں یہ بحث چھڑ گئی کہ ہم لوگ معاملات میں اتنے کمزور کیوں
ہیں؟جھوٹ دھڑلے سے بولا جارہا ہے ریاکاری کا چلن عام ہے چھوٹے چھوٹے دنیاوی مفادات
کے لیے ہم اپنے بہن بھائیوں دوستوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتے! آخر
کیوں؟کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں۔ہر کوئی اپنی فہم کے مطابق خیال آرائی کرنے لگاہے۔
کہاجاتاہے کہ سیاست دانوں کو دیکھ کر لوگ اپنا کردار بناتے ہیں ”اگر سیاست دان ایک
دوسرے کی کردارکشی اور کرپشن میں ملوث ہوں گے تو معاشرے پر غلط اثرات مرتب ہونگے“۔دوسری
شہریوں کا یہ بھی مطالبہ سامنے آیا ہے کہ ملک وقوم کی ترقی کے لیے ایک دوسرے کی کردارکشی
اور کرپشن کرنے والوں کے خلاف قانون سازی ہونی چاہئے کہ ملوث سیاست دانوں سمیت
تما م لوگوں کوکم ازکم10سال جیل اور عمر بھرکے لیے نااہلی ہو۔ گزشتہ کئی روز سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک کالم اور مبینہ ویڈیو کو چیئرمین نیب
سے منسلک کرکے بڑی بڑی پریس کانفرنسوں اہتمام کیا جارہاہے بڑے بڑے سیاست دان جن کے
ماضی میں لاتعداد مبینہ قصے، کہانیاں مشہور ہیں آج وہ بڑے فخر سے عدالتوں میں پیشی
کے وقت میڈیا کے سامنے ایک محب وطن شہری کی کردارکشی کرتے ہیں۔یہاں تک کے فاتحہ خوانی
کرتے وقت بھی سیاست چمکانے کو موقع نہیں دیا جارہاہے۔اور مطالبہ کیا جارہاہے کہ جوڈیشل
کمیشن تشکیل دے کر مبینہ ویڈیو پر چیئرمین نیب سے جواب طلب کیا جا ئے۔لیکن یہ بات اب
یہاں ختم نہیں ہوگی کیونکہ جدید دورشروع ہوچکا ہے۔لوگ کردارکشی کرنے والوں کو معاف
نہیں کریں گے بلکہ سوشل میڈیا سمیت ہر فورم پر پیچھاکریں گے۔اس لئے حکومت اور اپوزیشن
جماعتوں کو فوری طورپر انسداد کرپشن اور کردار کشی کرنے والوں کے خلاف فوری قانون سازی
پر غورکرنا چاہئے۔ بزرگ، مبصرین اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی
کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔اخلاق دنیا کے تمام مذاہب
کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں۔ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل
شئے اخلاق ہے۔اچھے اور عمدہ اوصاف و ہ کردار ہیں جس کی قوت اور درستی پر قوموں کے وجود،
استحکام اور بقا کا انحصار ہوتا ہے۔ معاشرہ کے بناؤاور بگاڑ سے قوم براہ راست متاثر
ہوتی ہے۔ معاشرہ اصلاح پذیر ہو تو اس سے ایک قوی، صحت مند اور با صلاحیت قوم وجود میں
آتی ہے اور اگر معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو تو اس کا فساد قوم کو گھن کی طرح کھا جاتا ہے۔جس
معاشرہ میں اخلاق ناپید ہو وہ کبھی مہذب نہیں بن سکتا، اس میں کبھی اجتماعی رواداری،
مساوات،اخوت و باہمی بھائی چارہ پروان نہیں چڑھ سکتا۔ جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی
عام ہوجائے وہاں کبھی امن و سکون نہیں ہوسکتا۔ جس ماحول یا معاشرہ میں اخلاقیات کوئی
قیمت نہ رکھتی ہوں اور جہاں شرم و حیاء کی بجائے اخلاقی باختگی اور حیا سوزی کو منتہائے
مقصود سمجھا جاتا ہو اْس قوم اور معاشرہ کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا یقینی ہوتا ہے خواہ
وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق
کی مالک ہوتی ہے جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیرہوجاتی ہے۔ یہ منظر آپ اِس وقت
دنیا میں اپنے شرق و غرب میں نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں کہ عروج و ترقی کہا ں ہے اور
ذلت و رسوائی کہاں ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں۔اگر اخلاق نہیں
تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں
بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائیگی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اسکے اخلاقی رویہ کے ما تحت
کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں اور جب اس کے سفلی جذبے اس پر غلبہ پالیں
تویہ نہ صرف اخلاقی وجود سے ملنے والی روحانی توانائی سے اسے محروم کردیتے ہیں، بلکہ
اس کی عقلی استعداد کو بھی آخر کار کند کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرہ درندگی
کا روپ دھار لیتا ہے اور معاشرہ انسانوں کا نہیں انسان نما درندوں کا منظر پیش کرنے
لگتا ہے۔ یہ سب اخلاقی بے حسی کا نتیجہ ہے۔ انسان کی اخلاقی حس اسے اپنے حقوق اور فرائض
سے آگاہ کرتی ہے۔اجتماعی زندگی کا اصل حسن احسان، ایثار،حسن معاملات، اخوت، رواداری
اور قربانی سے جنم لیتا ہے۔ جب تک اخلاقی حس لوگوں میں باقی رہتی ہے وہ اپنے فرائض
کو ذمہ داری اور خوش دلی سے ادا کرتے ہیں اور جب یہ حس مردہ اور وحشی ہو جاتی ہے تو
پورے معاشرے کو مردہ اور وحشی کر دیتی ہے تو وہ لوگوں کے حقوق کو خونی درندے کی طرح
کھانے لگتا ہے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔انسان میں حیوانی حس کا
وجود صرف لینا جانتا ہے دینا نہیں۔چاہے اس کا لینا دوسروں کی موت کی قیمت پرہی کیوں
نہ ہو۔ اور بدقسمتی سے یہی صورت حال آج ہمارے معاشرہ میں جنم لے چکی ہے۔ضرورت اس امر
کی ہے کہ ملک وقوم کو کرپشن اور ایک دوسرے کی کردارکشی کے لئے جاری طوفان سے بچانے
کے لیے ہر محب وطن شہری کرداراداکرے اور حکومت اور اپوزیشن تمام سیاسی مفادات سے بالاترہوکر
فوری قانون سازی کرنے چاہئے۔
|