سب نارمل ہے
اسماء طارق
گجرات
زندگی ہر شخص کےلیے مختلف ہے، غریب کےلیے روٹی زندگی ہے، بیمار
کےلیے صحت، امیر کےلیے فراغت ۔ ہر شخص اپنے نظریے اور زاویے سے زندگی کو دیکھتا اور
پرکھتا ہے۔ زندگی صرف حسین خواب ہی تو نہیں ،پھولوں کا ہار نہیں، بہاروں کا موسم ہی
نہیں، تاروں بھری رات نہیں بلکہ زندگی ایک ڈرونی حقیقت بھی ہے،کانٹوں کی سیج بھی ہے،
خزاں کی شام بھی ہے اور درد بھری داستان بھی ہے۔ یہ وہ سچائی جس سے نہ بھاگا جا سکتا
ہے اور نہ اس سے انحراف کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں خوشیاں ملتی ہیں وہیں غموں کی بارش بھی
رہتی ہے۔ جہاں سکھ ہے وہیں دکھ ہے ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے جسے نہ چاہتے ہوئے
بھی ماننا پڑتا ہے ۔ اگر آپ اور میں لاکھ کوشش بھی کر لیں ان دونوں کو جدا کرنے کی
تو ناکام رہیں گے۔ زندگی اگر کچھ دیتی ہے تو اکثر سب چھین بھی لیا کرتی ہے۔ ہم لاکھ
بھاگیں غموں سے دکھوں سے مگر یہ پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہیں گے کہیں نہ کہیں سے آ ٹپکیں
گے۔ وہ آئڈیل صورتحال جسے ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے کبھی نہیں آتی ۔ شادی
سے پہلے ہیرو ہیروئین سے کہتا ہے کہ میں تمہاری زندگی جنت بنا دونگا، سارے غم دور کر
دونگا اور پھر بعد وہ دونوں خود ایک دوسرے کو کوس کوس کر زندگی جہنم بنا لیتے ہیں ۔
میں اور آپ بھی اس آئڈیل زندگی کی چاہت میں بھاگتے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ
کوئی آئے گا اور سب ٹھیک کر دے گا ۔ ہم زندگی میں کچھ مختلف کچھ اچھا کرنا چاہتے ہیں
مگر حالات کے ناساز ہونے کی وجہ بس انتظار میں رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جب سب ٹھیک
ہو جائے گا تب میں کچھ کرونگا مگر نہ سب مکمل طور پر ٹھیک ہوتا ہے اور نہ ہم کچھ کر
پاتے ہیں ۔ زندگی ایسی ہی ہے کٹھی میٹھی اور اس نے ایسے ہی رہنا ہے، ہمیں اگر کچھ کرنا
ہے تو اسے ایسے ہی قبول کرنا ہے۔ دکھ سکھ کے ساتھ اور آگے بڑھنا ہے کچھ کرنا ہے وگرنہ
ہم بس انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے ۔
اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی آئے گا اور سب کچھ
ٹھیک کرے گا تو ایسا ممکن نہیں۔ یہ سب آپکو ہی ٹھیک کرنا ہے چھوٹے چھوٹے مگر مستقل
قدموں کے ساتھ اور آگے بڑھنا ہے کچھ کرنا ہے۔ اور زندگی میں جو تکلیف دہ لمحات ہیں
ان سے بھاگے بغیر ان کا سامنا کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے ۔ ہاں یہ کسی صورت بھی آسان
نہیں ہے مگر ناممکن بھی نہیں ہے ۔ خدا نے آج تک کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ
نہیں آزمایا مگر جہاں ہم زندگی سے بدلنے کی امید رکھتے ہیں وہیں ہمیں خود کو بھی بدلنا
ہے۔ اگر آپ دکھ کے حصار میں ہیں تو یقین مانیں کوئی شخص بھی اس سے مبرا نہیں ہے ہاں
کیفیت مختلف ہو سکتی ہے حالات مختلف ہو سکتے ہیں ۔ مگر چونکہ ہم نے اپنے رویوں سے اس
معاشرے کو ایسا بنا دیا ہے جہاں اگر کوئی منہ کھول کر سانس بھی لے تو اعتراضات اٹھتے
ہیں تو ہمیں ہمارا وجود تو انتہائی مظلوم لگتا مگر دوسرا اپنی تمام تر تکلیف کے ساتھ
ظالم۔ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مر مر کر جیا جاتا ہے، ہم روز جینے کے لئے ایک
دوسرے کو مارتے ہیں اور افسوس کہ کوئی بھی اس عمل سے باز نہیں آتا۔ ہم ایک گٹے ہوئے
معاشرے کی پیداوار ہیں، جہاں زور ہمارا دم گٹتا ہےاور کہیں ہوا کا کوئی سراخ نہیں ملتا۔اور
اب ہم اس ماحول کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں اگر کوئی سراخ دکھائی بھی دے تو ہم
اس کو بند کرنے لگ جاتے ہیں۔اس اندھیرے میں ہم بھاگ رہے ہیں اور بس بھاگ رہے ہیں،ایک
دوسرے سے آگے نکل جانے کے لئے ایک دوسرے کو ٹکریں مار رہے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ
وہی کامیاب ہے جو دوسروں کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اس سب کے باوجود زندگی نارمل
ہے اور مزید نارمل ہو سکتی ہے اگر ہم نارمل ہونا شروع کر دیں اور ایک دوسرے کو قبول
کرنا شروع کر دیں ۔ غم تب تک ہی غم ہے جب تک بندے نے اسے قبول نہیں کیا چاہے اس کی
شدت کتنی ہی کیوں نہ ہو ۔ جیسے ہی بندہ قبول کر لیا تو وہ اسکی شدت سے نکل کر
آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا ۔ میں نہیں کہتی کہ ایسے کرنا آسان ہے اور یہ آپ کو ہر وقت
مثبت رکھے گا ۔ ایسا نہیں ہے حالات ہر وقت ایک جیسے نہیں ہوتے اور جہاں مثبت سوچ ہے
وہیں انسان منفی سوچ بھی رکھتا ہے جس سے ناچاہتے ہوئے بھی واسطہ پڑتا ہے مگر ہم کوشش
کر سکتے ہیں کہ زیادہ مثبت رہیں، گر گریں تو روئیں بہت روئیں مگر پھر اٹھیں اور پھر
سے چلنے کی کوشش کریں چاہے رینگ کر ہی چلیں۔ ہمیں لگتا ہے ہم سے زیادہ کوئی دکھی
ہے ہی نہیں مگر جب کسی اور سے بات ہو اور اس کے حالات پتا چلیں تو اپنا غم ہلکا لگتا
ہے ۔ لوگوں سے بات چیت کیا کریں ان کے حالات جانا کیجئے ۔
جہاں حالات کی قبولیت ضروری ہے وہیں شکر گزاری بھی ۔ شکر گزاری
کو اپنی عادت بنا کر تو ہم خوش قسمتی کی دستک اپنے دروازے پر دے سکتے ہیں ۔ کیونکہ
شکر گزاری ہی خوش قسمتی کی گنجی ہے ۔فرمایا گیا : جو جتنی شکرگزاری کرے گا اسے
اتنا ہی دیا جائے گا اس لیے شکر واجب ہے ۔ مگر ہماری ذاتی زندگی ہو یا ہمارا کام ہماری
توجہ سب سے پہلے انہی چیزوں پر جائے گی جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں۔ جس وجہ سے معمولی
ہوتے ہوئے بھی وہ ہماری توجہ کا مرکز رہتی ہیں اور ہم ان کے حصار میں رہتے ہیں اور
انہیں اپنی کل کائنات سمجھ بیٹھتے ہیں جو بہت معمولی ہیں۔ مگر اگر سوچیں تو ان سب چیزوں
کا کیا جو روز ہماری زندگی میں مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ زندگی میں مثبت پہلوؤں
پر توجہ مرکوز کرنے کا ہر گز مطلب نہیں کہ ہم منفی پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں یا
ان سے جان چھڑا رہے ہیں بلکے اس طرح سے تو ہم زندگی میں ہر چیز کی درست سمت متعین
کر سکتے ہیں اور ہم چیز کو اتنی ہی توجہ اور اہمیت دیتے ہیں جنتی انہیں چاہیے
ہو نہ زیادہ، نہ کم کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم منفی چیزوں کو جتنی اہمیت اور توجہ
دے رہے ہوتے ہیں وہ بلکل بھی اسکی حامل نہیں ہوتیں ۔
|