Reply:
امریکہ سے پاکستان چھوڑنے کا مطالبہ مجید نظامی
امریکہ سے پاکستان چھوڑنے کا مطالبہ کیا جائے : سوات‘ وزیرستان میں مزید ایکشن کی بجائے جرگہ سے مسائل حل کئے جائیں : مجید نظامی
لاہور (خبرنگار) مدیر اعلیٰ نوائے وقت گروپ مجید نظامی نے کہا ہے کہ امریکہ کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ پاکستان چھوڑ دے۔ ہم بھی امریکہ کو اپنا دوست سمجھنا چھوڑ دیں۔ ہم اس کے بغیر نہ صرف گزارہ کرسکتے ہیں بلکہ ترقی بھی کرسکتے ہیں۔ سوات یا وزیرستان میں اب مزید ایکشن نہ کیا جائے بلکہ جرگہ بلاکر مسائل حل کئے جائیں۔ سوات سے مہاجر ہو کر آنیوالوں کو ان کے گھروں میں واپس بھجوایا جائے۔ طالبان مجاہدین کو جرگے کا انعقاد کرکے کشمیر بھجوا دیا جائے۔ ایکشن سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ وزیرستان کا ہر شہری مسلح ہے‘ ان کا مقابلہ مشکل ہوگا۔ وہ گزشتہ روز پریس انسٹیٹیوٹ آف پاکستان میں ’’پاکستان میں ذمہ دار میڈیا اپنی آزادی مستحکم رکھ سکتا ہے‘‘ کے موضوع پر ہونیوالی مجلس مذاکرہ سے خطاب کررہے تھے۔ مجلس مذاکرہ سے سابق رکن قومی اسمبلی سمیعہ راحیل قاضی‘ وقت ٹیلیویژن کے چیف نیوز ایڈیٹر طاہر ملک‘ وقت ٹیلیویژن کے اینکر پرسن سلمان عابد‘ دن ٹیلیویژن کے تجزیہ نگار اشرف شریف اور ڈائریکٹر پریس انسٹیٹیوٹ ابصار عبدالعلی نے بھی خطاب کیا۔ مجید نظامی نے کہا کہ طالبان اور مجاہدین کو کشمیر بھجوانا چاہئے تھا مگر ہمارے حکمران بھارت اور کشمیر کا نام لیتے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح ہندو عورت اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کو یہی مشورہ ہے کہ وزیرستان میں آپریشن کا ’’پنگا‘‘ نہ لیں مگر ہماری حکومت پنگا لینے میں بہت تیز ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہئے کہ پہلے ہی 25 لاکھ شہری سوات کے ٹھنڈے علاقوں سے نکل کر گرم علاقوں میں دربدر اور خوار پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کو مردِ حُر ان کے جیل میں طویل قیام کی وجہ سے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میاں نوازشریف نے جدہ میں گلہ کیا کہ زرداری کو مردِ حُر کہا ہے‘ تو انہیں کہا کہ اگر آپ یہاں ’’سرور پیلس‘‘ میں رہنے کی بجائے جیل میں ہوتے تو آپ کو مردِ حُر اوّل قرار دیتا۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے کھانے پر بلایا تھا۔ انہیں کہا کہ طویل اسیری کی وجہ سے آپ کو مردِ حُر قرار دیا تھا‘ اب صدر بن گئے ہیں تو مردِ حُر بن کر دکھائیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر نہ کٹوانا مردِ حُر کا کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی میڈیا کو خواہ وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک‘ سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے‘ خواہ فرشتوں کی جماعت کیوں نہ ہو‘ اس کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے‘ آزاد رہنا چاہئے‘ آزادی سے بات کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیدائشی مسلم لیگی ہیں مگر کبھی مسلم لیگ کا بھی آلہ کار نہیں بنے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت ذمہ داری سے کام لے تو آزادی صحافت کو مستحکم کرسکتی ہے۔ صحافت کو سب سے پہلے خود ذمہ دار ہونا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 47 برس سے نوائے وقت کے مدیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ نوائے وقت سب کی خبر دے اور سب کی خبر لے لیکن خود ذمہ دار ہو اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اخبارات بھی ہیں جو ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتے اور میڈیا کو بدنام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر بھی رہے‘ ضابطہ اخلاق تیار کیا‘ آج کہا جاتا ہے کہ ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔ اگر اے پی این ایس اور سی پی این ای اپنی فائلوں کی گرد جھاڑیں تو یہ ضابطہ اخلاق برآمد ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضابطہ اخلاق کے بغیر آزادی صحافت اور آزادی صحافت کے بغیر صحافت ممکن نہیں ہے۔ اگر صحافت آزاد نہیں تو یہ صحافت کہلا بھی نہیں سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الطاف گوہر کا کہنا تھا کہ نظامی صاحب صحافی ہوتے ہوئے بھی سیاست میں حصہ لیتے ہیں جس پر انہیں کہا کہ اخبار بھی سیاسی ہے فلمی نہیں ہے اس لئے سیاسی ہوں جبکہ آپ تو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاست کررہے ہیں۔ الطاف گوہر نے ملازمت سے علیحدہ ہونے کے بعد ڈان میں لکھنا شروع کیا تو گرفتار ہوئے جس پر ان کے حق میں اداریہ لکھا جس پر وہ حیران ہوئے تو انہیں کہا کہ یہ صحافتی ذمہ داری ہے۔ پھر وہ نوائے وقت کے کالم نگار بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ دارانہ صحافت کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار رہتا ہوں لیکن چونکہ وکالت پڑھی ہے‘ اس لئے محتاط بھی رہتا ہوں تاکہ ایسی چیز شائع نہ ہو جس پر گرفت ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ سب ڈکٹیٹروں کو بھگتا ہے‘ سول حکمرانوں کو بھگتا ہے‘ سب ناراض بھی رہے۔ ایوب خان‘ ضیاء الحق‘ پرویز مشرف‘ بھٹو‘ نوازشریف سب نے کوشش کی اور نوائے وقت کے اشتہارات بند کئے کیونکہ ان کے پاس کوئی اور حربہ نہیں تھا لیکن ان سے یہی کہا کہ اشتہارات نہیں آزادی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب خان سے ملاقات ہوئی تو ان کے بیٹے بھی ہمراہ تھے۔ ایوب خان نے کہا کہ اخبار کاروبار ہے‘ ملک کا خیال رکھیں جس پر انہیں کہا کہ ملک کا خیا ل ہے اور اخبار کاروبار نہیں مشن ہے۔ اپنے جس بیٹے کو فوج سے نکال کر گندھارا میں بھیجا ہے‘ اسے اخبار نکال کر دیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘ کا منشور دیا تو انہیں کہا کہ اسلامی مساوات کا حامی ہوں۔ آپ مکہ کی بجائے ماسکو لے جا رہے ہیں۔ بھٹو نے کہا کہ جے اے رحیم کی شرارت ہے‘ اسے ٹھیک کردونگا مگر جیل سے باہر آکر انہوں نے ہمیں ٹھیک کرنا شروع کردیا۔ اشتہارات بند کردئیے۔ انہوں نے کہا کہ مصطفی صادق نے کہا کہ بھٹو نے چائے پر بلایا ہے۔ وہاں گئے تو بھٹو نے کہا کہ مصطفی اشتہارات کی بات تو نہیں ہوئی جس پر مصطفی صادق سے کہا کہ کیا اشتہارات کی بات کرنے کیلئے تم یہاں ساتھ لیکر آئے تھے۔ بھٹو نے کہا کہ نظامی صاحب اشتہارات کی بارش کردونگا۔ انہیں کہا کہ اس بارش کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے اشتہارات بند کئے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود انکم ٹیکس ادا کیا ہے‘ خسارے میں نہیں جا رہے۔ اشتہارات کی بات نہیں کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید میاں نوازشریف کے ساتھ بیٹھے تھے‘ مجھے مخاطب کرکے کہا کہ اس ملک میں غریب کا بچہ وزیر نہیں بن سکتا جس پر میاں نوازشریف سے کہا کہ دیکھیں شیخ رشید کیا کہہ رہے ہیں اور پھر شیخ صاحب وزیر بن گئے تو انہوں نے الحمراء ہال میں کہا کہ نظامی صاحب نے وزیر بنوایا ہے مگر انہی کے دوست نوازشریف نے مجھے کہا ہے کہ نوائے وقت کے تو نہیں البتہ نیشن کے اشتہارات بند کردیں مگر میاں نوازشریف کو کہہ دیا ہے کہ ان کے اشتہارات تو کھل جائیں گے میری چھٹی ہوجائیگی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں چاہے کوئی حکمران ہو‘ اسے اخبارات کی آزادی گوارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے بلایا تو کہا کہ رائے نہیں دے رہے جس پر انہیں کہا کہ ’’آپ نے صرف ایک کال پر سرنڈر کردیا‘‘ تو پرویز مشرف نے کہا کہ آپ ہوتے تو کیا کرتے۔ انہیں کہا کہ میں اس جگہ کیوں ہوتا‘ اگر آپ بھی اپنا کام کررہے ہوتے تو یہ مشکل پیش نہ آتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں بھی ہوتا فوراً ہاں کرنے کی بجائے کہتا کہ صحیح بات کرونگا‘ اپنے وزراء سے مشورہ کرونگا‘ اسلامک تنظیم کا اجلاس بلائونگا‘ اس طرح وقت حاصل کرلیتا‘ فوری طور پر ہاں نہ کرتا جس پر جنرل پرویز مشرف نے میٹنگ ختم کردی۔ طارق عزیز نے باہر آکر کہا کہ جنرل صاحب کے ساتھ کیسی باتیں کررہے تھے‘ جس پر انہیں کہا کہ آپ کو نہیں جانتا آپ کون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ دار صحافت کا کام یہ ہے کہ جو بات کہنا چاہئے وہ ضرور کہیں۔ اگر حکمران کو وہ بات پسند نہیں تو بھی اسے برداشت کرنا پڑیگی‘ اگر نہیں کرتا تو جہنم میں جائے۔سمیعہ راحیل قاضی نے کہا کہ اس وقت پھر ملک 1971ء والے حالات کا شکار ہے۔ پورے پاکستان کو مجید نظامی کی رہنمائی اور قیادت کی ضرورت ہے۔ طاقت کے استعمال سے زیادہ اشتعال پھیلے گا۔ چند سو افراد کو کچلنے کیلئے لاکھوں افراد کو بے گھر کرکے مشتعل کر دیا ہے۔ ان مہاجرین سے خودداری‘ غیرت اور عورت کا پردہ چھین لیا ہے۔ بلوچستان میں جھنڈا لہرانے اور قومی ترانہ پڑھنے کی اجازت نہیں۔ ہمیں سب کچھ صحیح نہیں بتایا جا رہا۔ ہم آدھا ملک گنوا چکے باقی کو گنوانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن فوری طور پر بند کیا جائے۔ طاہر ملک نے کہا کہ صحافت چار پہیوں سے چلنے والی گاڑی ہے جس کے پہیے صحافی‘ مالکان‘ صحافتی تنظیمیں اور حکومت ہے۔ تاریخ میں نوائے وقت کا نام ہمیشہ سب سے زیادہ سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جرنلزم کی ’’مشروم گروتھ‘‘ سے آزادی جرنلزم کو خطرہ ہے۔ آدھے ٹی وی چینلز پر تنخواہ بروقت نہیں ملتی لہذا وہاں معیار اور اخلاق بھی اس طرح نہیں ہے جیسا ہونا چاہئے۔ حکومت صرف صاف ستھرے مالی طور پر مستحکم افراد کو ٹی وی چینلز کی اجازت دے۔ سلمان عابد نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت ٹارگٹ بنایا گیا ہے پاکستان کو ناکام ریاست بنا کر پیش کیا جا رہا ہے گلوبل میڈیا میں اب بات دوسری جگہ پہنچانا آسان ہو گیا ہے۔ لہذا پاکستان کا مقدمہ اب اندرون اور بیرون ملک دونوں جگہ لڑنا ہو گا اور یہ ذمہ داری میڈیا کو ادا کرنا ہو گی۔ اب انویسٹی گیشن اور ریسرچ پر فوکس کرنا ہو گا جبکہ اس وقت سارا زور نیوز جرنلزم پر ہے۔ جرنلسٹ ایکٹوازم کا شکار ہو گئے ہیں۔ جذباتیت زیادہ اور تحقیق کم ہو گئی ہے۔ ریاست کو میڈیا اور میڈیا کو ریاست سے شکایت ہے۔ مضبوط اداروں کے بغیر ذمہ دار میڈیا کا تصور ممکن نہیں ہے۔ http://www.nawaiwaqt.com.pk/pakistan-news-newspaper-daily-urdu-online/National/22-May-2009/6856
|