Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: DrSafdar
Full Name: Dr.Safdar Mehmood
User since: 8/Sep/2010
No Of voices: 339
 
 Views: 2363   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

عقیدت و محبت کا سفر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

دوسری قسط
عقیدت میں جب محبت بھی شامل ہو جائے تو سمجھئے کہ جذبہ، آرزو اور لگن دو آتشہ یعنی دوگنا ہو جاتی ہے۔ مدت سے آرزو تھی کہ وہ استنبول دیکھا جائے جس کی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح کی پیش گوئی ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تھی اور اس پیش گوئی نے حقیقت کا روپ کوئی آٹھ سو برس بعد اختیار کیا۔ موجودہ دور کے حوالے سے یہ پیش گوئی ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ پاکستان امریکہ+ویٹی کن کو فتح کر لے گا جو بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ اس دور میں قیصر روم کا شہر قسطنطنیہ نہ صرف عیسائیوں کا مذہبی مرکز اور روحانی منبع تھا بلکہ اسے ایک منی سپرپاور کی بھی حیثیت حاصل تھی اور پھر اس کی بازنطینی حکومت کی پشت پناہی ساری عیسائی اور مغربی قوتیں متحد ہو کرکر رہی تھیں۔ گویا اسے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ آبنائے یاسفورس کے کنارے آباد قسطنطنیہ یورپ کا گیٹ وے سمجھا جاتا تھا کیونکہ یہاں سے یورپ کی سرحدوں کا آغاز ہوتا تھا۔ قسطنطنیہ جس کا فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے نام استنبول رکھا آج بھی دو حصوں میں تقسیم ہے۔

ایک حصہ یورپ میں ہے جبکہ دوسرا حصہ ایشیا میں ہے۔ ایک انگریز مصنف کے مطابق سلطان محمد فاتح نے اس کا نام ”اسلام بول“رکھا تھا جو ترک فوجیوں کے لب و لہجے کے سانچے میں ڈھل کر استنبول بن گیا۔ حدیث بخاری کے مطابق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ” میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر روم کے شہر پر حملہ آور ہوگا اس کو اللہ نے بخش دیا ہے“۔ اس کے علاوہ مسلم ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے کہ ”تم قسطنطنیہ کو ضرور فتح کر لو گے، رحمت ہو اس حکمران اور اس لشکر پر جس کے ہاتھوں یہ فتح نصیب ہو“ (بحوالہ کلیم چغتائی۔ ادوارِ زریں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے پیش نظر قسطنطنیہ مختلف مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہا اور صحابہ کرام قسطنطنیہ پر حملوں کی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔

 ایک روایت کے مطابق یہ سلسلہ حضرت عثمان  کے دور سے شروع ہوا، شاید سات برس تک جاری رہا لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ حضرت ابو ایوب انصاری کے شوق جہاد کا یہ عالم تھا کہ آپ 80 سال کی عمر میں بھی اس جہادی فوج میں شامل تھے جو قیصر روم کے شہر قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے گئی، شہر کی فصیلوں کے سامنے نمودار ہوئی اور محاصرہ کئے فتح کی منتظر رہی لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس معرکے کے دوران حضرت ایوب انصاری 49ہجری یا 50 ہجری میں انتقال فرما گئے اور انہیں قسطنطنیہ کی فصیل کے قریب دفن کر دیا گیا۔ جب آٹھ سو سال بعد سلطان محمد فاتح نے 857ھ یعنی 1953ء میں قسطنطنیہ فتح کیا تو اس نے صحابی رسول حضرت ایوب انصاری کی قبر تلاش کرنا شروع کی لیکن کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس نے شیخ الاسلام شیخ شمس الدین سے راہنمائی کے لئے درخواست کی۔ انہوں نے مراقبے کے ذریعے قبر کی نشاندہی کی۔ جب وہ جگہ کھودی گئی تو سنگ مر مر کا ایک کتبہ ملا جس کی عبارت سے حضرت ایوب انصاری  کی قبر کی تصدیق ہوگئی۔

 (بحوالہ کلیم چغتائی۔ ادوار زریں) ۔سلطان محمد فاتح نے آپ  کی قبر پر شاندار گنبد اور مقبرہ بنوایا اور ساتھ ہی ایک عالیشان مسجد بھی بنوائی۔ میری دیرینہ خواہش تھی کہ حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر حاضری دوں اور ہدیہ عقیدت پیش کروں۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ خواہش پوری کی اور مجھے اپنے قیام کے دوران حضرت ابو ایوب انصاری کے مزار پر تین دفعہ حاضر ہونے کا موقعہ ملا اوران کے نام سے منسوب مسجد میں نمازیں اور نوافل ادا کرنے کا بھی موقع ملا جس نے ایک عجیب کیف و مستی اور جذب کی کیفیت پیدا کی۔ دراصل یہی جذب استنبول یاترا کا حاصل تھامیں جب بھی مزار پر حاضر ہوا اسے عقیدت مندوں سے بھرا پایا۔ اس مزار کی ایک منفراد شان یہ بھی ہے کہ اس کی ایک دیوار میں ایک خوبصورت روشن دان میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآسلم کا نقش پا محفوظ ہے اور اس روشندان کو شیشے سے بند کر دیا گیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نشان کی زیارت کے لئے بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔
میں حضرت ابوایوب انصاری
 کے مزار سے نکل کر استنبول یعنی قسطنطنیہ شہر کی تاریخی فصیل کی جانب گیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں مدینہ منورہ کی کسی گلی کے ایک چھوٹے سے گوشے میں آگیا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش گوئی کے طفیل استنبول کی فصیل کے ساتھ بڑے بڑے عالی مرتب صحابہ اکرام آرام فرما رہے ہیں۔ سب سے پہلے جس مزار کی بیرونی دیوار کے کتبے نے میرے پاؤں جکڑ لئے وہ مزار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رضاعی بھائی حضرت بحشت الحدری کا تھا۔ میرے ناقص علم کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلانے والی اماں حلیمہ کے بیٹے کا نام عبد اللہ تھا لیکن برادرم رفیق ڈوگر نے اپنی کتاب ”الامین“ کی پہلی جلد میں واضح کیا ہے کہ اس دور میں ایک ہی ماں کا دودھ پینے والے تمام حضرات رضاعی بھائی ہی سمجھے جاتے تھے۔ ان کے مزار کے ساتھ دوسرے حصے میں حضرت حمید اللہ الانصاری، حضرت احمد الانصاری اور ان کے مزار سے آگے حضرت محمد الانصاری مدفون ہیں۔

 ان کے پڑوس میں حضرت کعب اور حضرت جابر جیسے ممتاز صحابی گلیوں میں فیض عام کے چشموں کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں۔ فصیل کے نیچے چھوٹے دروازے کے ساتھ ایک چھوٹے سے قبرستان میں اس جہاد کے شہداء دفن ہیں۔ میں اندر گلی میں داخل ہوا تو حضرت ابو ذر غفاری کے نام کی پلیٹ پر نظر پڑی۔ تحقیق کی تو راز کھلا کہ اگرچہ حضرت ابوذر غفاری مدینہ سے تھوڑے فاصلے پر گاؤں ربذہ میں دفن ہیں لیکن چند صدیاں قبل ترکی کے کسی وزیر کے خواب میں حضرت ابو ذر غفاری سے ملاقات ہوئی، نہ جانے خواب میں کیا بیتی لیکن ان صاحب نے استنبول کے پرانے شہر کی ایک تنگ گلی میں حضرت ابو ذر غفاری کا علامتی مزار اور اس کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کروا دی جو ہمہ وقت آباد رہتی ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کہ جب انسان محبت و عقیدت کے جذبے سے اتنے سارے عالی مرتبت صحابہ کرام کی خدمت میں درود و سلام اور ہدیہ عقیدت پیش کرے تو وہ جگہ اس کو مدینہ منورہ کے قریے کا ایک چھوٹا سا قریہ کیوں نہیں لگے گی کیونکہ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شہر میں ایک ہی مقام پر اتنی بڑی تعداد میں صحابہ کرام دفن ہوں۔

 وہ زمین جو اتنے عظیم صحابہ اکرام کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اس کے تقدس کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے دلوں میں حُب رسول کی جاگ لگی ہوئی ہے۔ اسی شہر کی ایک پہاڑی پر ایک پیغمبر حضرت یوشا کا مزار بھی ہے لیکن یہ سب باتیں عام سیاحوں کے لئے قابل کشش نہیں کیونکہ وہ صرف استنبول کی خوبصورتی، گہرے سبز سمندر اور مغربی طرز حیات کے نظارے دیکھنے آتے ہیں اور نیم عریاں حسن اور ”مشروبات“ میں کھو جاتے ہیں وہ کیا جانیں کہ روح کا بھی ایک حسن ہوتا ہے اور بزرگوں کی نگاہ بھی جذب و کیف کا نشہ پیدا کرتی ہے جو دنیاوی لذتوں کے برعکس انسان کو ہمیشہ کے لئے سکون قلب، باطنی روشنی اور روحانی مسرت سے مالا مال کر دیتی ہے… معاف کیجئے گا میں کہاں سے کہاں نکل گیا موضوع ابھی تشنہ ہے انشاء اللہ پھر سہی۔

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution