Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: International_Professor
Full Name: International Professor
User since: 22/Jan/2008
No Of voices: 353
 
 Views: 2925   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

طالبان کمانڈر کی عجیب سی نماز جنازہ

قاری زین الدین

قاری زین الدین نے بیت اللہ محسود پر دوسرے ملکوں کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا تھا

رواں ہفتے ہلاک ہونے والے قبائلی رہنماء اور حکومت کے حامی طالبان کمانڈر قاری زین الدین کی نماز جنازہ ڈیرہ اسماعیل خان میں ادا کی گئی۔

طالبان کمانڈر کو شیعہ مسلک کے قبرستان میں دفناتے وقت ان کے جنگجؤں کی حفاظت کے لیے سکیورٹی اہلکار تعینات تھے۔ اس موقع پر بہت کم تعداد میں لوگ ، ان کے ساتھی اور صحافی ڈیرہ اسماعیل خان کے شدید گرم موسم میں آخری رسومات کی ادائیگی تک موجود رہے۔

عام اور بکتر بند گاڑیوں میں چوکس سکیورٹی اہلکار پہرہ دے رہے تھے جبکہ قاری زین کے حامی شدت پسند آنسو بہاتے نظر آئے۔

قاری زین الدین کو منگل کے روز ان کے ایک محافظ نے نمازِ فجر کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس سے ایک روز قبل بی بی سی نے ان سے بیت اللہ محسود کے خلاف کارروائی کرنے کے فیصلے کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے ملاقات طے کی تھی۔ لیکن جوان طالبان کمانڈر کے بارے میں قسمت نے کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔

انہوں نے حال ہی میں کھلے عام بیت اللہ محسود کو اسلام اور پاکستان کا دشمن قرار دیا تھا۔ انہوں نے بیت اللہ محسود کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تھا اور اس مقصد کے لیے عبداللہ محسود کے نام سے طالبان کا ایک گروپ بنایا تھا جسے حکومت کی حمایت حاصل تھی۔

حالیہ دنوں میں دونوں قبائلی رہنماؤں کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مدد فراہم کی گئی جو اب بیت اللہ محسود کو واضع خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن قاری زین الدین کی ہلاکت کے بعد اس منصوبے کی دھچکا پہنچا ہے۔

عبداللہ محسود قاری زین کے چچا زاد بھائی تھے جو ان طالبان کمانڈروں میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو نشانہ بنانے کی آواز بلند کی تھی۔

انہیں پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے بلوچستان میں مبینہ طور پر بیت اللہ محسود کی معلومات پر ہلاک کر دیا تھا۔ عبداللہ محسود کی ہلاکت کے بعد محسود قبائل کے اندر بیت اللہ محسود کے کنٹرول کے خلاف زین الدین نے مزاحمت شروع کی تھی۔

زین الدین ایک اور قبائلی کمانڈر ترکستان بیٹنی کے قریبی ساتھی تھے جو بیٹنی قبائل کے سردار اور بیت اللہ محسود کے مخالف تھے۔

حالیہ دنوں میں دونوں قبائلی رہنماؤں کو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مدد فراہم کی گئی جو اب بیت اللہ محسود کو واضع خطرے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن قاری زین الدین کی ہلاکت کے بعد اس منصوبے کی دھچکا پہنچا ہے۔

قاری زین الدین کا نماز جنازہ سکیورٹی کے متعدد خدشات کی وجہ سے تاخیر کا سبب بنی۔ ان کے خاندان کی خواہش تھی کہ ان کو آبائی علاقے جنوبی وزیرستان میں دفنایا جائے لیکن خفیہ ادارے اس کے حق میں نہیں تھے۔ کیونکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو معلوم تھا کہ طالبان قبریں کھود کر لاشوں کو لٹکانے کی حرکتیں کر چکے ہیں۔

قاری زین الدین نماز جنازہ سکیورٹی کے متعدد خدشات کی وجہ سے تاخیر کا سبب بنی ۔ ان کے خاندان کی خواہش تھی کہ ان کو آبائی علاقے جنوبی وزیرستان میں دفنایا جائے لیکن خفیہ ادارے اس کے حق میں نہیں تھے۔ کیونکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو معلوم تھا کے طالبان قبرین کھود کر لاشوں کو لٹکانے کی حرکتیں کر چکے ہیں

ڈیرہ اسماعیل خان Ú©Û’ ایک مقامی صحافی Ú©Û’ مطابق بیت اللہ محسود Ú©Û’ حامی قاری زین سے شدید نفرت کرتے تھے۔ ' یہ بہت حد تک ممکن تھا کہ ان Ú©ÛŒ لاش جنوبی وزیرستان میں کسی درخت Ú©Û’ ساتھ لٹکی ہوئی نظر آتی۔"˜

اسی وجہ سے بی بی سی کو منگل کے روز قاری زین کو دفنانے کے مقام اور وقت کے بارے میں جاننے کے لیے کافی مشکلات کا سامنا رہا۔

ان کی میت کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے جنوبی وزیرستان منتقل کرنے کی اطلاعات بھی غلط ثابت ہوئیں ۔تاہم یہ معلوم ہو سکا کہ آخری رسومات میں شرکت کے لیے ان کے اہلخانہ کو جنوبی وزیرستان سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لایا گیا۔

آخری رسومات کی جگہ اور مقام کو چند گھنٹے پہلے تک خفیہ رکھا گیا۔

مدینہ ٹاؤن میں اہل تشیع اکثریت میں ہیں جہاں طالبان کمانڈر کی آخری رسومات ہونا تھیں لیکن یہ ایک عجیب سی بات تھی کیونکہ طالبان شیعہ مسلک کو غیر مسلم یا اس سے بھی بد تر تصور کرتے ہیں ۔

لیکن حکومت کے حامی طالبان نے اس علاقے کو آخر اپنا مرکز بنا لیا۔ اس جگہ پہنچنے کے لیے جب تنگ گلیوں سے گزرنا پڑا تو دو چیزیں بہت واضح تھیں ۔ ایک تو مقامی لوگوں موجود نہیں تھے دوسرا ہر کونے پر مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد نظر آئی۔

کسی بھی ممکنہ خودکش حملہ آور کے ساتھ مقامی لوگوں اور قبائلیوں کو قبرستان سے دور رکھنے کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے

یہ بات پہلی بار دیکھی گئی کہ طالبان اور سکیورٹی اہلکار ایک ہی چیک پوسٹ پر اکٹھے نظر آئے۔ جس جگہ قاری زین کو ہلاک کیا گیا تھا وہاں گاڑی کھڑی کرنے پر ایک طالبان نے بتایا کہ پہلے قبرستان جانا ہو گا۔ قبرستان اہل تشیع اور چند ایک عیسائی فرقے کے لوگوں کی آخری آرام گاہ ہے۔

قاری زین کی آخری رسومات پر کیے گئے حفاظتی انتطامات دیکھ کر سکیورٹی فورسز کے بیت اللہ محسود کے خلاف کی جانی والی کامیاب کارروائی کے دعوٰی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

کسی بھی ممکنہ خودکش حملہ آور کے ساتھ مقامی لوگوں اور قبائلیوں کو قبرستان سے دور رکھنے کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جن کو دیکھ کر سکیورٹی فورسز کے بیت اللہ محسود کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں ہونے والی پیش رفت کے دعوؤں کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔

ایک مقامی صحافی نے تلخ لہجے میں کہا کہ یہ ایک بڑا ہجوم ثابت ہوا ہے بر حال ایک جانب وہ لوگ ہیں جو قاری زین کو ملحد اور غدار تصور کرتے ہیں۔

دراصل اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کی حمایت کرنے پر قاری زین الدین کے حمایتی ان کو کیسے دیکھتے ہیں۔

سکیورٹی فورسز کے پاس صرف یہ ہی راستہ تھا کہ وہ اپنے حمایتی کی لاش کو بچانے کے لیے اس طرح کے ہی انتظامات کر سکتی تھی جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ کس سمت جا رہی ہے۔

قاری زین کو ہلاک ہونے سے بچانے میں ناکامی کے بعد ان کی باقیات کو بچانے کا صرف یہ ہی راستہ تھا کہ ہر ممکن طریقے سے ان کو جنوبی وزیرستان سے دور رکھا جائے۔

اپنے بھائی قاری زین الدین کا مشن جاری رکھیں گے اور وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک بیت اللہ محسود کو ہلاک نہیں کر دیتے۔

مصباح الدین

جنازے کے فوری بعد قاری زین کے وفادار شدت پسند ان کے گھر جمع ہو گے جہاں انہیں ہلاک کیا گیا تھا۔ گھر میں ان کے بھائی مصباح الدین کو نیا سربراہ بنانے کی ایک مختصر تقریب منتعد ہوئی۔

انہوں نے اس تقریب کے بعد بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بھائی قاری زین الدین کا مشن جاری رکھیں گے اور وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک بیت اللہ محسود کو ہلاک نہیں کر دیتے۔

انہوں Ù†Û’ کہا کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن کرنا حکومت کا حق ہے اور جو لڑائی میں مارے جا رہے ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔لیکن ایک اور پہلو پر ان Ú©ÛŒ سوچ واضح تھی اور وہ یہ کہ ' امریکیوں اور ان Ú©Û’ اتحادیوں Ú©Û’ خلاف جہاد جاری رہے گا۔"˜

مصباح الدین کے خیال میں بظاہر افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کی وجہ سے جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو جنوبی وزیرستان میں صرف غیر ملکی شدت پسندوں سے مسئلہ ہے لیکن اس کے ساتھ وہ افغانستان میں جہاد کے لیے ہماری حمایت کرتی ہے۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/06/090625_strange_burial_zee.shtml
 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution