"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining
what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Latest Top 3
No Article has been posted in last 30 days
Views: 3870
Replies: 0
Share with Friend
Post Comment
اہلِ نظر نے بھانپ لیا تھا کہ ان برقع پوش ہیولوں کے احترام اور مذہب کی تقدیس کے نام پر کسی بھی وقت ریاست کو مفلوج کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے مذہبی عناصر کی حکمت عملی سمجھنا ہو تو کرسٹوفر ایشروڈ کا ناول ’گڈ بائی ٹو برلن‘ پڑھیے۔ اسے محمد حسن عسکری نے ’آخری سلام ‘ کے عنوان سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔( یہ ناول 20ویں صدی کی تیسری دہائی کے ابتدائی برسوں میں جرمنی کی سیاسی و سماجی صورتِ حال پیش کرتا ہے)۔
جنگ میں شکست خوردہ جرمن ریاست کا ڈھانچہ کچی دیوار کی طرح ہِل رہا تھا۔ نسل پرستی اور یہودی دشمنی کے نام پر بےروزگار نوجوانوں کے جذبات بھڑکائے جا رہے تھے۔ فوج اور سیاستدان باہم دست و گریباں تھے۔ روایتی سیاسی قائدین عوام کی مناسب رہنمائی کرنے میں ناکام تھے۔ ادھر ہٹلر نام کے ایک خبطی سابق فوجی کی قیادت میں فسطائی جماعت ریاست پر قبضہ جمانے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔
اس جماعت کے پاس خطرناک مگر دلکش نعرے تھے۔ لڑنے مرنے پر آمادہ نوجوانوں کے جتھے تھے اور نادیدہ ذرائع سے آنے والا سرمایہ تھا۔ حکومت میں مزاحمت کا دم خم تھا اور نہ خواہش۔ طاقتور حلقے سمجھتے تھے کہ وہ فسطائیوں کے ذریعے اپنے مفادات بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن فسطائی عناصر جھوٹ، قتل و غارت اور بے پناہ پروپیگنڈے کی بنیاد پر اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتِ حال زیادہ مختلف نہیں۔ معروف جمہوری اصولوں کی روشنی میں حکومت کا دستوری جواز کمزور ہے۔ روایتی سیاسی قیادت کی اہلیت محدود بھی ہے اور اسے جبر کے بل پر بےدست و پا بھی کیا گیا ہے۔ برسوں کی کاوش سے ایسی رائے عامہ تیار کی گئی ہے جو لال مسجد کے کسی خاص واقعے پر اظہارِ ناپسندیدگی تو کر سکتی ہے، فکری سطح پر مذہبی سیاست کی کھل کر مخالفت کا یارا نہیں رکھتی۔ ہئیتِ مقتدرہ کے مختلف حصے باہم تصادم کا شکار ہیں۔ حکومت کے اعٰلی ترین عہدیداروں سے لیکر سیاسی رہنماؤں تک کسی نے لال مسجد کے مؤقف کی عوامی سطح پر مخالفت کی جرات نہیں کی۔
بچوں کی لائبریری پر قبضہ ہو یا غیرمصدقہ الزامات لگا کر خواتین کو اغوا کرنا، خودکش حملوں کی دھمکیاں ہوں یا قانون کے پابند دکانداروں کو ڈرانا دھمکانا، سرکاری زمین پر قبضہ ہو یا غیر ملکی باشندوں کو یرغمالی بنانا، ریاست کے نیمے بروں نیمے دروں ردِ عمل سے گہرے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے۔
عام خیال یہ ہے کہ لال مسجد کے کرتا دھرتا افراد کو طاقتور حلقوں میں خفیہ حمایت حاصل ہے۔ اس کا اندازہ لال مسجد کے ڈھاٹے باندھے جوانوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحے، گیس ماسک اور دُوبدُو لڑائی کی مہارتوں سے بھی ہوتا ہے۔
حکومت کی طرف سے لال مسجد کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری بنیادی طور پر چوہدری شجاعت کے کندھوں پر رہی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ گفت و شنید میں چوہدری شجاعت کی کمزوری وہی ہے جو 1953 میں خواجہ ناظم الدین کی تھی۔ خواجہ صاحب اپنی مذہبی طبعیت کے باعث مذہبی پیشواؤں کے مطالبات دو ٹوک انداز میں رد کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ چوہدری شجاعت حسین قانون شکنی پر تُلے ہوئے لال مسجد کے رہنماؤں کی دِلجوئی کرتے ہوئے انہیں بتاتے ہیں کہ خود ان کے گھر میں ان کی اہلیہ نے ٹیلی ویژن سیٹ توڑ دیا ہے۔
لال مسجد کا احتجاج ناجائز طور پر تعمیر شدہ مساجد کے انہدام سے شروع ہوا تھا اور اس کی تان مبینہ فحاشی کے خلاف مہم اور نفاذ شریعت کے مطالبے تک آن پہنچی ہے۔ دنیا کی کوئی حکومت فحاشی کے ضمن میں مذہبی پیشواؤں کی تسکین نہیں کر سکتی۔فحاشی تو ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ تاریخی تناظر میں یہ امر واضح ہے کہ مذہبی پیشوا جب شریعت کے نفاذ کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کا اصل مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دی جائے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چان
لال مسجد سے متعلق واقعات کے بارے میں ذرائع ابلاغ اور حکومتی سطح پر استعمال ہونے والی لغت حیران کن ہے۔ لال مسجد کے برقع پوش اور ڈنڈا بردار جتھے کسی شہری یا سرکاری اہلکار کو اغوا کرتے ہیں تو اسے ’گرفتار کرنا‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اعٰلی سرکاری عہدیداروں کی طرف سے للوپتو کے بعد ان مغویوں کو بازیاب کیا جاتا ہے تو اسے ’رہائی‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ دارالحکومت میں ریاستی انتظامیہ اور قانون شکن عناصر میں فائرنگ کا تبادلہ رکنے پر ’فائربندی‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ منگل کی شام قائد حزبِ اختلاف فضل الرحمان صاحب نے خونریز جھڑپوں پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ مسلسل مذاکرات کیے جا سکتے ہیں تو لال مسجد کے ساتھ مذاکرات کیوں جاری نہیں رکھے جا سکتے۔ گویا لال مسجد کا قضیہ بھی دو ریاستوں کے درمیان بین الاقوامی تنازعہ ہے۔
متعدد تجزیہ نگاروں نے اس حسنِ اتفاق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ موجودہ عدالتی بحران میں جب بھی کوئی اہم موڑ پیش آتا ہے لال مسجد الہ دین کے چراغی جن کی طرح نمودار ہو جاتی ہے۔
تیرہ مارچ کو چیف جسٹس کی پہلی پیشی کے موقع پر اسلام آباد میں خواتین کے اغوا کا واقعہ پیش آیا۔ دو جولائی کو سرکاری وکلا کو عدالت عالیہ میں پیش کردہ دستاویزات کے ضمن میں خاصی جامع خفت اٹھانا پڑی۔ اگلے ہی روز لال مسجد کے باہر آگ اور خون کا کھیل شروع ہو گیا۔ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ منگل کے روز جھڑپوں میں پہل کس نے کی تھی۔
ایک تعجب انگیز نکتہ یہ ہے کہ غیرمعمولی طور پر فعال سپریم کورٹ نے لال مسجد سے رونما ہونے والے پےدر پے واقعات پر از خود نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اسلام آباد کے ایک باخبر صحافی کے مطابق لال مسجد کا نقاب پوش تنازعہ تین فریقوں میں شطرنج کی پیچیدہ بازی ہے۔ پہلا فریق حکومت ہے جو سمجھتی ہے کہ گہرے سیاسی مسائل سے توجہ ہٹانے کا ایک نسخہ لال مسجد بھی ہے جسے چوبی مہرے کی طرح آگے پیچھے حرکت دی جا سکتی ہے۔ دوسرا فریق مقتدر حلقوں کا وہ نادیدہ حصہ ہے جو لال مسجد کی شکل میں حکمران جنتا کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ اس کشمکش کا تیسرا فریق وہ عناصر ہیں جو مذہب کے نام پر ریاست اور معاشرے پر تسلط کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اس رستاخیز میں حقیقی فائدہ غالباً تیسرے فریق ہی کو مل رہا ہے جو متشدد مذہبی سیاست کو وزیرستان کی پہاڑیوں سے مارگلہ کے دامن میں لے آیا ہے۔
اب بھلے حکومت لال مسجد کے خلاف کچھ بھی کارروائی کرے، مذہبی جنونی لال مسجد سے اٹھنے والی چنگاریوں کو جگنوؤں کی طرح اپنی ٹوپیوں میں سنبھال کر ملک کے کونے کونے میں پھیل جائیں گے۔ صدیق سالک نے لکھا تھا کہ نظریات کو کچلنا بندوقوں کے بس میں نہیں ہوتا ۔ لال مسجد کے ضمن میں تو اتنی تاخیر کی گئی ہے کہ سرکاری بندوق کی نالی میں بہت سا زنگ بھی لگ گیا ہے۔
|
No replies/comments found for this voice
|