ماریکن پالیسی بیان دینا آپکی مجبوری ھو سکتے ھے ھماری نہیں۔ آپ سے تو اگر جنرل کی برطرفی سے ایک منٹ پہلے بھی پوچھا جاتا کہ اختلافات ھیں اور جنرل کی بر طرفی ھونے والی ھے تو آپکا جواب نہیں میں ھی ھوتا۔ امریکہ کہ کیا عزائم ھیں مسلمانوں کے بارے میں۔ یہ عالم اسلام بڑی اچھی طرح جانتی ھے آپکی تقریر سے وہ بدل نہیں جائیں گے۔ امریکہ کا انجام افغانستان میں وہی ھوگا جو ویتنام مین ھوا تھا اور یہ نوشتہ دیوار ھے، بیشک آپ پڑھیں یا نہیں۔ میں امریکہ یا امریکنز کے خلاف نہیں لیکن امرہکہ اگر اپنی ناک ادھ ادھر گھسیڑا گا تو اسے اپنی ناک بچانی مشکل ھو گی۔
Reply:
امريکی افواج اور سياسی قيادت ميں اختلافات
Replied by(
USCENTCOM)
Replied on (1/Jul/2010)
ہميں اجازت ديں کہ پہلے آپکے اس بيان کی وضاحت کرديں کہ جنرل ميک کرسٹل کا استعفے شخصياتی احتلافات کی بناء پر تھا جسے عوام الناس ميں نامناسب طريقے سے پيش کيا گيا جس کا افغانستان ميں موجودہ حکمت عملی سے کوی تصادم یا اختلاف نہيں ہے۔
آپکی اطلاع کيليۓ : ہمارے صدر نے اس قول کا دوبارہ اظہار کيا ہے کہ ہماری افواج کا افغانستان سے انخلاء جولای 2011 ميں شروع ہوجايگا۔
کيا يہ پيغام آپ اورآپ جيسے لوگوں کيليۓ ببانگ دہل نہيں جو سچّی خبروں کو توڑ موڑ کر ھوّا کھڑا کرديتے ہيں!
جی ہاں! ہمارے نۓ کمانڈ نگ آفيسر جنرل پيٹريس نے بعينہ طور پر کہا،
" افغانستان ميں ہماری کوششيں مناسب طور پر اس طرح مرکوز ہوں گی کہ آباديوں کا تحّفظ کيا جاے۔" پتہ نہيں آّپ کس انداز سے ديکھيں گے کہ
يہ احمقانہ بات کہ تمام تر امريکی فوجيں صرف ايک فرد کی خاطر اس کے جانے پر جسے واپس بلاليا گيا ھو ميدان جنگ چھوڑ سکتی ہے! آپکے اس بيان پر ہنسنے کو جی چاہتا ہے! ہماری فوج پيشہ ورانہ صلاّحيتوں کی حامل ہے وہ اس حالت جنگ ميں کبھی بھی اپنے ملک کو نہيں چھوڑيں گے۔
ياد رہے! ہمارے صدر نے کہا، "افغانستان ميں ہمارا اہم مشن واضح ہے کہ القاعدہ، طالبان اور ان کے انتہا پسند ساتھيوں کے نيٹ ورک کا خاتمہ کيا جاے اور انہيں شکست ديجاے۔"
ظہير يوسف
DET, US Central Command
www.centcom.mil