"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining
what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Latest Top 3
No Article has been posted in last 30 days
Views: 3801
Replies: 0
Share with Friend
Post Comment
یہ مذاکرات پیر کی شام سات بجے شروع ہوئے جس میں وفاق المدارس کے علماء مفتی رفیع عثمانی، سلیم اللہ خان، حنیف جالندھری اور دوسروں کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین، وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی اور ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی بھی حصہ لے رہے تھے۔ یہ رابطہ موبائیل فون اور لاؤڈ اسپیکروں پر ہو رہا تھا کیونکہ غازی عبدالرشید نے بات چیت کے لیے مسجد سے باہر آنے سے انکار کردیا تھا اور علماء کے وفد کو حکام نے مسجد کے اندر جانے سے روک دیا تھا۔
٭ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ایک ایڈیشنل سیشن جج نے مسجد کے باہر پہنچ کر لاؤڈ سپیکر پر سپریم کورٹ کا وہ حکم پڑھ کر سنایا جس میں حکومت کو ہدایت کی گئی تھی کہ علماء غازی عبدالرشید سے بات چیت کریں اور مسئلے کو پرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔ جج نے لاؤڈ سپیکر پر غازی عبدالرشید اور ان کے ساتھیوں سے یہ بھی کہا کہ وہ خود کو ان کے حوالے کردیں ان کی جانیں محفوظ رہیں گی۔ چوہدری شجاعت حسین نے غازی عبدالرشید سے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی خود کو قانون کے حوالے کردیں انہیں نہ مارا جائے گا اور نہ ہی ان کی بے عزتی کی جائے گی۔ اعجاز الحق نے غازی عبدالرشید سے کہا کہ وہ بات چیت کے لیے مسجد کے قریب واقع سرکاری سکول یا پھر قریبی پل پر چلے آئیں لیکن غازی عبدالرشید مسجد سے باہر نہ آنے کے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔
٭ انہوں نے مذاکرات کے لیے ایک موبائیل فون مانگا جو انہیں لاؤڈ سپیکر والی ایک گاڑی کے ذریعے جامعہ کے دروازے تک پہنچایاگیا جسے ایک نقاب پوش نوجوان آ کر لے گیا۔
بعد ازاں اس موبائیل فون پر باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے جو رات کو لگ بھگ ایک بجے تک جاری رہے۔
٭ ذرائع کے مطابق غازی عبدالرشید کے سامنے مختلف راستے رکھے گئے تھے جن میں گرفتاری پیش کرنے کے علاوہ انہیں اور ان کے گھر والوں کو محفوظ راستہ مہیا کرنے کی پیشکش بھی شامل تھی۔ بعد ازاں حکومتی ٹیم اور علماء کا وفد واپس چلا گیا۔ حنیف جالندھری نے جاتے وقت صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات ناکام نہیں ہوئے اور یہ امید بھی ظاہر کی کہ مسئلے کا پرامن حل نکل آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ منگل کو صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کرکے اس مسئلے پر مزید بات کریں گے۔
٭ چوہدری شجاعت حسین نے رات گئے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی اور انہیں مذاکرات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں رات تقریباً دو بجے کے بعد چوہدری شجاعت اور دیگر وزراء لال مسجد کے باہر واپس پہنچے اور یہ اطلاعات آئیں کہ حکومت غازی عبدالرشید کو محفوظ راستہ فراہم کرنے پر تیار ہوگئی ہے اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بلوچستان کے ساتھ صوبائی سرحد کے قریب واقع اپنے آبائی گاؤں چلے جائیں گے جبکہ جیل میں قید ان کے بھائی مولانا عبدالعزیز اور ان کی صاحبزادی کو بھی ان کے ساتھ جانے کے لیے رہا کیا جارہا ہے۔
٭ اس کے کچھ دیر بعد کالعدم جہادی تنظیم حرکت الانصار کے سابق سربراہ مولانا فضل الرحمن خلیل بھی وہاں پہنچے اور ان کے بارے میں یہ اطلاعات آئیں کہ غازی عبدالرشید کی خواہش پر انہیں وہاں بلایا گیا ہے تاکہ وہ ان کے ساتھ ممکنہ طور پر طے پانے والے معاہدے کو حتمی شکل دے سکے۔
٭ شب تقریباً تین بجے کے قریب وفاقی وزیر اعجازالحق نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسئلے کے پر امن حل کے لیے اپنی آخری کوشش کر رہے ہیں بعد ازاں منگل کی صبح پونے چار بجے چوہدری شجاعت حسین نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور بتایا کہ وہ مذاکرات سے مایوس ہوگئے ہیں۔
٭ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے غازی عبدالرشید کو ہر طرح کی پیشکش کی اور خدا، رسول کے واسطے بھی دیے لیکن وہ پرامن طور پر اس مسئلے کو حل کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔
٭ اس پریس کانفرنس کے فوری بعد منگل کو صبح چار بجکر بیس منٹ پر کمانڈوز لال مسجد کے اندر داخل ہوگئے اور فیصلہ کن آپریشن شروع کردیا۔
٭ کچھ دیر بعد ہی پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد کا سرکاری ٹی وی سے یہ بیان نشر ہوا کہ لال مسجد کے خلاف آپریشن شروع ہوگیا ہے اور کمانڈوز مسجد کے اندر داخل ہوگئے ہیں۔ بعد ازاں منگل کی دوپہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آپریشن میں 50 جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ ایک کیپٹن سمیت 8 فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں اور 29 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
٭ ان کا کہنا تھا ’وہاں انتہائی مسلح اور تربیت یافتہ دہشت گرد موجود ہیں۔ ان کے پاس ہر قسم کا اسلحہ ہے، مشین گنز ہیں راکٹ لانچرز ہیں اور وہ گرنیڈز بھی استعمال کر رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں تو اس آپریشن میں دیر لگ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مدرسے کے اندر بچے اور خواتین بھی موجود ہیں تو ہم اس معاملے کو مرحلہ وار آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ اس کے نتیجے میں دونوں طرف انسانی جانوں کا بے جا ضیاع نہ ہو‘۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد چھ بچے مدرسے سے باہر آئے جنہیں سکیورٹی فورسز نے تحویل میں لے لیا۔
٭ دوپہر دو بجے کے قریب خبر آئی کہ مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ امِ حسان اور ان کی بیٹی کو مدرسے سے باہر نکلنے پر گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مزید 25 خواتین کو بھی باہر آنے پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اسی دوران صدر جنرل پرویز مشرف کی زیرصدارت ہونے والے ایک اعلی سطحی اجلاس میں لال مسجد آپریشن پر غور ہوا۔ صدر نے کہا کہ جامعہ حفصہ کے اندر موجود دہشت گردوں کو فرار ہونے کا موقع نہیں دیا جائے گا اور ان کے خلاف آخر تک کارروائی جاری رہے گی۔
٭ سہ پہر کے وقت وفاق المدارس کے عہدیداران نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ دار حکومت ہے۔ تنظیم کے جنرل سکریٹری حنیف جالندھری نے کہا کہ غازی عبدالرشید کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے ڈرافٹ کو رات دیر سے ایوان صدر لے جایا گیا تھا جہاں اسے تبدیل کردیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے پر اتفاق ہوا تھا کہ غازی عبدالرشید کو ان کے سامان اور اہل خانہ سمیت ان کے آبائی گاؤں میں ان کے گھر میں بحفاظت منتقل کردیا جائے گا اور تمام طالبات کو ہمارے حوالے کیا جائے گا اور ہم انہیں محفوظ مقام پر لے جائیں گے اور ان کے والدین کے سپرد کریں گے اور جو طلبہ ہیں یا دیگر افراد ہیں انہیں بھی علماء اور حکومتی نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت کمیٹی کے ارکان مدرسے میں موجود افراد کو ایک محفوظ مقام پر لے جاتے جہاں ان کے بارے میں انکوائری ہوتی اور جن کے خلاف مقدمات ہوتے انہیں حراست میں لے لیا جاتا۔
’لیکن چوہدری شجاعت ایوان صدر سے جو ڈرافٹ لائے وہ بالکل مختلف تھا اور اس میں یہ تحریر تھا کہ غازی عبدالرشید کو اہل خانہ سمیت ایک مکان میں نظر بند کیا جائے گا لیکن یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ وہ مکان کہاں ہوگا۔ اسی طرح جامعہ حفصہ اور مسجد کے اندر موجود طلبہ کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ خود کو قانون کے حوالے کردیں اور غازی عبدالرشید اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی‘۔
واضح رہے کہ آپریشن کی بناء پر آج سیکٹر جی سکس کے علاقے میں جہاں لال مسجد اور جامعہ حفصہ واقع ہیں۔ کرفیو میں کوئی نرمی نہیں کی گئی۔
آپ سے آیک سوال ّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّ
آخر حکومت کیا چھپانا چاہتی ہے؟
لال مسجد میں منگل کی صبح چار بجے حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کے ناکام ہونے کے بعد سے جاری آپریشن میں حکام کے مطابق اب تک پچاسیوں افراد اور لال مسجد کے مہتمم غازی عبدالرشید ہلاک ہوچکے ہیں۔ لال مسجد تک صحافیوں کی رسائی محدود کردی گئی ہے جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں صحافیوں کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ ہسپتال جانے والے صحافیوں کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر میڈیا کے کسی شخص کو ہسپتال میں دیکھا گیا تو اسے گولی مار دی جائے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحافیوں کی ہسپتالوں تک کیوں نہیں جانے دیا جارہا؟ آخر حکومت کیا بات چھپانا چاہتی ہے؟ کیا اس تمام صورتِ حال سے غازی عبدالرشید کی حمایت میں اضافہ ہوگا اور وہ ہیرو بن جائیں گے؟
|
No replies/comments found for this voice
|