جی بڑے سائیں ۔ انصار عباسی
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بیچارے یوسف رضا گیلانی مجبور اور بے بس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے سامنے اُنکی ایک نہیں چلتی اور ماسوائے صدر صاحب کی جی حضوری کے اُنکی وزارت عظمیٰ میں کچھ نہیں۔ ایک صاحب جن کی حال ہی میں گیلانی سے ملاقات ہوئی ان کا کہنا تھا ان کی موجودگی میں صدر زرداری کا چار بار وزیراعظم کو فون آیا۔ صدر نجانے کیا کہہ رہے تھے مگر وزیر اعظم محض جی بڑے سائیں۔ جی بڑے سائیں کہتے رہے۔ نہ کبھی ہاں کہا نہ نا۔ نہ کوئی سوال پوچھا نہ کوئی وضاحت کی۔ بس ہر بار صرف جی بڑے سائیں۔ جی بڑے سائیں کہتے رہے۔ نجانے ملتان کا مخدوم زادہ زرداری صاحب کے کسی تعویز گنڈے کے زیراثر ہے یا صدر کے ہاتھ میں وزیراعظم کی کوئی ”کمزوری“ آئی ہوئی ہے گیلانی صاحب ہیں کہ اُف تک نہیں کرتے…!!
گیلانی صاحب اور اُنکی کابینہ ملکی خزانہ پر محض بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔ اگر صدر نے ہی تمام فیصلے کرنے ہیں تو وزیراعظم اور وزراء کی فوج پر قوم پیسہ کیوں خرچ کرے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی تمام فیصلے ایوان صدر میں ہو رہے ہیں اور وزیراعظم کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی سی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گیلانی ایک اعلان کرتے ہیں مگر صدر کا فیصلہ اس اعلان کے بالکل برعکس آتا ہے جس پر وزیراعظم چوں چراں کیے بغیر من وعن عمل کرتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم کی جگ ہنسائی لازمی ہے مگر گیلانی صاحب ہیں کہ اُن کو غصہ آتا ہے اور نہ ہی اُنکے ٹھنڈے مزاج میں کوئی تلخی ظاہر ہوتی ہے۔ وہ سرجھکائے اپنی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں۔
اختیارات ہوتے بھی بااختیار نہیں تو کیا ہوا کم از کم اُنکے نام کے ساتھ وزیراعظم تو لکھا جاتا ہے…!! پاکستان اور عوام کے ساتھ جو بھی ہو آخر ملتان نے پہلے کتنے وزیراعظم پیدا کئے اور کسے معلوم پھر کبھی کسی گیلانی کو وزارت عظمیٰ کا تاج نصیب بھی ہوتا ہے کہ نہیں…؟؟ چاہے نیرو بانسری بجانے میں مصروف تھا جب روم آگ میں جل رہا تھا مگر تھا تو وہ بادشاہ‘ جس نے تقریباً 15سال روم کی حکمرانی کی۔
اگر نیرو کا روم واقعتاً ایک بڑی آگ کی وجہ سے تباہ و برباد ہوا تو یوسف رضا گیلانی کی زیرحکمرانی پاکستان مہنگائی‘ کرپشن‘ اقربا پروری‘ بدامنی و دہشتگردی‘ انتہائی بدانتظامی اور تباہ حال معیشت کی وجہ سے تباہی کے راستے پر گامزن ہے مگر اسکے باوجود حکمرانوں کی غیرسنجیدگی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ صدر زرداری کے رویہ پر توبہت بحث ہو چکی مگر گیلانی صاحب نے ثابت کیا ہے کہ وہ بھی کوئی کم نہیں اور یہ کہ وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے انتہائی غیرسنجیدہ اور غیرموزوں ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق جولائی 2008ء سے جون 2009ء تک پاکستان میں 195ارب روپے کی کرپشن ہوئی جو جولائی 2009ء سے جون 2010ء میں بڑھ کر 223ارب روپے ہوگئی۔ کرپشن نے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ملکی خزانے کا پیسہ جو عوام کی خوشحالی اور اُنکی تعلیم اور صحت کیلئے خرچ ہونا چاہئے حکمرانوں اور بڑے بڑے افسروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ ان حالات میں کرپشن کے خاتمے کیلئے بنائے گئے حکومتی اداروں خصوصاً نیب میں ایسے چیئرمین کی تعیناتی کی ضرورت تھی جس پر سب کا اعتماد ہوتا اور جو بذات خود ایماندار اور غیرجانبدار ہوتا تاکہ بلاامتیاز ہر کرپٹ کیخلاف کارروائی کی جاتی۔ مگر حکومت نے ایک ایسے ”جیالے“ کو یہ عہدہ سونپ دیا جس کا بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ہمیشہ گہرا تعلق رہا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان کے درمیان اِس مسئلہ میں ہونے والی مشاورت اور چوہدری نثار کے دیدار شاہ کے نام پر اعتراض کے بعد یکم اکتوبر کو گیلانی صاحب نے سینیٹ میں اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اُنہوں نے سپریم کورٹ سے چیئرمین نیب کی تعیناتی کیلئے مزید وقت مانگ لیا ہے تاکہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ اِس تعیناتی پر بامقصد مشاورت ہو سکے، مگر جو حقیقت میں ہوا وہ اسکے بالکل برخلاف۔
چوہدری نثار کو پوچھا گیا نہ مشاورت کی گئی بلکہ حکومت نے متنازع دیدار شاہ کو چیئرمین نیب لگانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ گیلانی صاحب ہمیشہ کی طرح اپنا کہا بھول گئے اور کہہ دیا کہ صدر نے اپنی صوابدید کو استعمال کرتے ہوئے یہ تعیناتی کی۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی میاں نواز شریف کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ایک شفاف کمیشن بنانے کا اعلان کیا مگر کچھ ہی دن میں گیلانی صاحب اپنی بات سے پھر گئے اور میاں صاحب کمیشن کے قیام کا انتظار ہی کرتے رہے۔
بعدازاں جب پوچھا گیا تو وزیراعظم نے کہا کہ صوبے شفاف کمیشن کے آئیڈیا سے متفق نہ تھے۔ گیلانی صاحب نے جو بھی کہا یہ پورا پاکستان جانتا تھا کہ صدر زرداری نے وزیراعظم اور نواز شریف کے شفاف کمیشن کی تجویز کو رَد کر دیا تھا۔ آج کل ایوان صدر میں غور کیا جا رہا ہے کہ اعلیٰ سرکاری عہدوں سے کن کن ”این آر او زدہ“ افراد کو نکالا جائے اور وفاقی کابینہ میں کس قسم کی تبدیلیاں کی جائیں؟ اختیار تو یہ وزیراعظم کا ہے مگر استعمال ایوان صدر کر رہا ہے…!! وزیراعظم کی رائے کا تو پتہ نہیں مگر ایوان صدر کے لوگ اعجاز جاکھرانی پرویز اشرف نوید قمر کے علاوہ کئی وزرائے مملکت کے فارغ کئے جانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کچھ افرادکو بھی نکالے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔ ایران میں پاکستان کے سفیر ایم بی عباسی کو پہلے ہی فارغ کیا جا چکا ہے اور اب برطانیہ میں پاکستان کے سفیر واجد شمس الحسن پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ اور کچھ دوسرے افراد کو فارغ کئے جانے پر غورو خوض جاری ہے۔ اصل میں ہوتا کیا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں کیونکہ یہاں ہر روز فیصلے بدلتے ہیں اور ”اعلان شدہ“ اقدامات واپس لئے جاتے ہیں۔
اعجاز جاکھرانی جن کی وزارت آج خطرے میں ہے نے چند ماہ قبل کسی کو بتایا کہ ایک روز صدر زرداری نے اُنہیں بلایا اور ہدایت کی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کیلئے کچھ نام تجویز کئے جائیں۔ دروغ برگردن راوی کچھ دن گزرنے کے بعد جب جاکھرانی صدر زرداری کے پاس اُنکی ہدایت کے مطابق کچھ نام لے کر گئے تو صدر صاحب نے اُنہیں بری طرح ڈانٹ دیا اور فیصلہ صادر فرمایا کہ چاہے پاکستان کی کرکٹ تباہ ہو جائے پی سی بی کے چیئرمین اعجاز بٹ ہی رہیں گے…!! مگر آج جاکھرانی اور بٹ دونوں کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔ ہوتا کیا ہے اللہ ہی جانے…!!
|