Reply:
امريکی سفارت کار
مخترم فيضی صاحب،
آپ کی گفتگو کچھ زيادہ ہی وسيع ہے۔ لگتا ہے کہ آپ تمام ايشوز کے بارے ميں ايک ہی پوسٹنگ میں بات کرنا چاہتے ہیں ليکن بدقسمتی سے يہ نا ممکن ہے۔ اس ليے ميری درخواست يہ ہے کہ آپ اس گفتگو کو حقائق کے ساتھ متعلقہ ٹاپک تک ہی محدود رکھیں۔
امريکی حکومت نے يہ بلکل واضع طور پر کہا کہ يہ سفارتکار اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے سے وابسطہ ہے اور اس کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہے اور اس کو جون 2012 تک پاکستانی ويزہ بھی حاصل ہے۔
خقيقت يہ ہے کہ گرفتاری کے بعد امريکی سفارت کار نے پوليس کے سامنے يہ واضح کيا کہ وہ سفارت کار ہيں اور متعدد بار سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا کنويشن کے تحت استثنی کا مطالبہ کيا۔ مقامی پوليس اور سينير حکام نے اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہيں کی اور نہ ہی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے اور نہ ہی لاہور ميں امريکی قونصل خانے سے ان کی حيثيت کے حوالے سے معلومات حاصل کيں۔ اس کے علاوہ سفارت کار کا ريمانڈ بھی ليا گيا جو کہ عالمی ضوابط اور ويانا کنوينشن کی خلاف ورزی ہے، جس پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہيں۔
چذباتی اور غير منظق سوچ کو چھوڑ کر آ پ ذرا اس کيس کی نوعيت پر غور کيجيے گا۔ مسٹر ڈيوس کے پاس سفارتی استثنی ہے اور يہ اسے امريکی حکومت نے نہيں دی بلکہ ويانا کنونشن کے قانون کے تخت فراہم کی گئ۔ جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ سال 1961 ميں سفارتی تعلقات کے حوالے سے ويانا ميں ہونے والے کنونشن ميں اسے ايک عالمی قانون کی حيثيت سے تسليم کيا گيا تھا جسے امريکہ اور پاکستان نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا ہے بلکہ اس پر دستخط بھی کيے ہيں۔
جو تجزيہ نگار اس معاملے پر امريکہ کے موقف کو دباؤ اور بليک ميلينگ قرار دے رہے ہيں وہ اس ضمن میں پاکستان کی بين الاقوامی ذمہ داری اور ضمانت کو نظرانداز کر رہے ہيں۔
امريکہ سميت دنيا بھر ميں ايسی کئ مثالیں موجود ہيں جب سفارت کاروں نے اپنے سفارتی عہدے کی بنياد پر کاميابی سے سفارتی استثنی جاصل کی ہے۔ اگر سفارتی استثنی قانونی طريقے سے حاصل کی جاۓ تو اس صورت ميں پوليس واقعے کی نوعيت سے قطعی نظر کاروائ نہيں کر سکتی۔
ذوالفقار – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
|