Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Muhammad_Abbas_Khan
Full Name: Muhammad Abbas Khan
User since: 11/Feb/2010
No Of voices: 105
 
 Views: 2340   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، ایک عظیم خطرہ

 

ہماری اس پیاری اور حسین سی دنیا میں سکندر اعظم نے جنگیں لڑیں، چنگیز خان نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا، تیمور نے آدھی دنیا فتح کی، نپولین نے فتوحات سے اپنا نام روشن کیا، صلاح الدین ایوبی نے آدھے یورپ کو اپنے آگے لگا لیا، جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوم ہوئی، چھوٹی موٹی جنگیں اب بھی جاری ہیں، ویت نام کی جنگ، عراق کی جنگ، ایران کی جنگ، افغانستان کی جنگ اور اب شمالی افریقہ اور عربین ورلڈ کی جنگیں وغیرہ لیکن دنیا تو ترقی کر رہی ہے تو کیا دنیا کا اخلاق اور ضمیر بھی ترقی کر رہا ہے، کیا عظیم انسان جنگوں سے توبہ کر لے گا، کیا اقوام متحدہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگی اور اگر نہیں تو پھر کیا ہوگا؟

ایک نئی جنگ لیکن کیسے اور کیوں؟ تحفظ آب کے بارے میں امریکی ماہرین نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں اس سال کے شروع میں کہہ دیا، ’’مختلف ممالک کے درمیان تنازعات اور جنگوں کی بڑی وجہ آنے والے وقتوں میں پانی کی کمی ہی ہوگی۔‘‘ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن نے ڈی سی واشنگٹن میں رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں پانی کی کمی کو ایک سیاسی دباؤ یا ہتھیار کے استعمال کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہلیری نے اس سے انکار نہیں کیا کہ ایک بڑے خطرے کے طور پر دہشت گرد پانی کے منصوبوں، بڑے آبی ذخیروں اور ڈیموں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔

امریکی ماہرین جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس کا شکار تاجکستان میں زیرتعمیر راگون ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بھی ہو سکتا ہے جو کہ دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے اونچا ڈیم ہے۔ یاد رہے اس کی اونچائی 335 میٹر ہوگی۔ راگون پن بجلی گھر کے بارے میں اس سے قبل سینکڑوں مضامین اور ایسی ڈاکومنٹری فلمیں سامنے آئی ہیں جو کہ اس کے زلزلہ آنے والے علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک عظیم خطرے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ایک تاجک سائنسدان نے اپنے مضمون ’’رحمان تاجکستان کے لئے بطور وراثت کیا چھوڑ کر جائے گا‘‘ میں اس خطرے کی نشاندہی کی ہے جیسا کہ مذکورہ سائنسدان نے کہا ’’ زلزلہ آنے والے خطرناک علاقے میں دنیا کا سب سے اونچا ڈیم اپنی 335 میٹر اونچائی کے ساتھ کوئی مرغ کی کلفی نہیں ہے۔ اسے دنیا کے انتہائی پڑھے لکھے ماہرین کو بنانا چاہیے جو کہ رحمان کے پاس نہیں ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں تاجکستان میں صرف چند ہی لوگ جانتے ہیں کہ راگون پن بجلی گھر کی تعمیر میں اتنے زیادہ فنی مسائل ہیں کہ کوئی بھی انسپکشن ٹیم اسے رد کر دے گی، مستقبل کے اس ڈیم کے نیچے ایک بڑا نمک کا ذخیرہ ہے، یہاں لینڈ سلائیڈ کے بہت بڑے خطرات ہیں اس کے لئے کوئی پروفیسر ہونے کی بھی ضرورت نہیں کہ جانا جا سکے یعنی نمک گلنے کی صورت میں 335 میٹر اونچا ڈیم کیا شکل اختیار کرے گا اور کیا قیامت ڈھائے گا۔‘‘ اور پھر یہ کہ اگر یہ یقین کر لیا جائے کہ راگون میں اتنا عظیم پن بجلی گھر تعمیر بھی کر لیا جائے گا تو یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ اس کی حفاظت کون کرے گا، کیا دہشت گردوں کے لئے یہ ایک آسان ٹارگٹ نہ ہوگا،

 کیا یہ تاجک حکومت کے لئے ایک مستقل درد سر نہ ہوگا، کیا ایسا تو نہیں کہ اس ملک کے شہری جن کو پراجیکٹ کے حصص خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہیں اس بڑے ڈیم کو لاحق خطرات کے یرغمال تو نہ بن جائیں گے، کیا وہ مالک ہوں گے یا کہ یرغمالی، بہرحال تاجک عوام کے لئے یہ ایک اہم سوال ہے۔ واشنگٹن کے صحافی جوشوا کوسہرا نے ویب سائٹ یورو ایشیا نیٹ پر تاجکستان کے مشہور سیاستدان اور احیائے اسلام پارٹی آف تاجکستان کے چیئرمین محی الدین کبیری کا انٹرویو شائع کیا جس میں مذکورہ سیاستدان نے تسلیم کیا کہ تاجکستان کی حکومت دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی اہل نہیں ہے۔ کبیری نے کہا کہ مشرقی تاجکستان میں ہونے والے تمام واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

کیا واقعی تاجک حکومت اہم منصوبوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہے، اس صورت و حالات میں جبکہ راشت وادی اور طاوِل دارا میں دہشت گردوں کے اڈے ابھی تک موجود ہیں اور یہ کہ جیلوں سے جرائم پیشہ افراد کے دستے بھاگ جاتے ہیں نیز یہ کہ دارالحکومت دوشنبہ میں بھی دھماکے ہوتے رہتے ہیں، کیا اس چیز کی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ جرائم پیشہ افراد یا دہشت گرد جہاد کا نعرہ لگاتے ہوئے پارٹی کے بڑے بڑے ذخیروں یا ریڈیو ایکٹو مادوں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کریں گے۔ کیا ایک شخصیت امام علی رحمانوف کی خواہشوں کے ہاتھوں ملک تاجکستان کے عوام کو اپنا مستقبل خطرے میں ڈال لینا چاہیے۔

دراصل صدر تاجکستان کو ہر چیز سب سے بڑی بنانے کا خبط ہو گیا ہے جیسا کہ امریکی انجینئروں نے دارالحکومت دوشنبے میں 165 میٹر اونچا جھنڈا لہرانے کے لئے دبئی میں پول بنایا پھر اسے بذریعہ سمندر ایران لایا گیا اور ٹرکوں پر تاجکستان پہنچایا گیا، صرف اس جھنڈے اور اس کے پول پر ساڑھے تین ملین ڈالر خرچ کئے گئے جو کہ ملک کے کل سالانہ بجٹ کا دس فیصد رقم بنتی ہے لیکن بہرحال صدر موصوف کہہ سکتے ہیں کہ تاجکستان کا جھنڈا سب سے بڑا اور سب سے اونچا ہے۔ ایم کبیری کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا دراصل حکومت کے احساس کمتری کا نشان ہے جو کہ ملک میں انویسٹرز اور ٹورسٹس کو متوجہ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے وہ شاید اپنی معاشی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے اس قسم کے منصوبوں یا ہتھکنڈوں پر عمل کرتی ہے۔

صدر رحمان ایک دوسرا عظیم منصوبہ بھی بنا رہے ہیں دوشنبہ میں وسطی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد کی تعمیر۔ اس مسجد میں ایک وقت میں دارالحکومت کی آدھی آبادی نماز پڑ سکے گی یعنی ایک لاکھ پندرہ ہزار نمازی اس ایک سو ملین ڈالر کے خرچے سے بننے والی اس عظیم مسجد میں آ کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔

تو بس جینس بک کے ریکارڈوں میں اضافہ کرنے کے لئے غریب ممالک کے لیڈران ایسے ایسے کرتب کرتے رہتے ہیں جن کا حقیقت سے ذرا سا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اس غریب ملک کے عوام کو اس کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی ایسے منصوبوں پر ضرور خرچ ہو جاتی ہے جو کہ نہ صرف بنانا مشکل ہوتے ہیں بلکہ ان کو سنبھالنا، ان کی مرمت و حفاظت بھی مشکل ہوتی ہے البتہ ریکارڈ ضرور بن جاتا ہے، ایسا ہی ایک ریکارڈ ہے تاجکستان میں راگون پن بجلی گھر کا دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اور یہ ہے خواب تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کا، وہ بن بھی پائے گا یا کہ نہیں، یہ سوال بہرحال ابھی تک تو اپنی جگہ قائم ہے، یاد رہے صدر مشرف نے بحرہ عرب میں ایک فوارہ نصب کیا تھا جو کہ صدر موصوف کے ساتھ ہی کہیں غائب ہوگیا ہے۔

تحریر: محمد عباس خان، تاشقند

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution