عشق عباد ت سے عشق کمینہ تک
یہ لق و دق صحرا
کا منظر ہے وہ دور کہیں ریگستانی جہاز کے کھڑے ہونے کےآثار نظر آتے ہیں ۔اُس کے
پہلومیں ہونے والی حرکات وسکنات سے انسانی زندگی کی موجوددگی کا پتا ملتا ہے ۔
نگاہیں اس منظر کا تعاقب کرتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مسافر ہے جو خدا کے
حضور سر تسلیم خم کیے کھڑا ہے۔ اس منظر سے کچھ فاصلے پر ایک اور منظر دکھائی دیتا
ہے ۔ بالوں میں ریت، چہرے پر جمی گرد کی تہیں،پیاس کی شدت سے لٹکتے ہوئے ہونٹ، جگہ
جگہ سے پھٹا بوری نما لباس،پاؤں میں آبلے اور آنکھوں میں ایک ناختم ہونے والی کھوج لیے گرتا سنبھلتاہوا ایک شخص اُونٹ کےپاس نماز
پڑھتے ہوئے شخص کی طرف بڑھ رہا ہے مگر وہ کسی کی تلاش میں اس قدر مستغرق ہےکہ اُسے پتا ہی نہیں چلتاکے وہ ایک نماز پڑھتے شخص
کے سامنے سے گزر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔نماز پڑھنے والا نماز چھوڑکر اُس مجنون سے شخص کو
رُوکتا ہے اور پوچھتاہے:
"تمہیں نظر
نہیں آتا میں نماز پڑھ رہا ہوں اور تم آگے سے گزر رہے ہو"؟
صحرانوردیہ
الفاظ کہتا ہے اور نمازی کی سوچوں میں طوفان بھرپا کرتے ہوئے چلا جاتا ہے:
"کتنی عجیب
بات ہے نا۔۔۔۔۔۔میں ایک عورت کی تلاش میں ایک قدر کھویا ہوا ہوں کہ مجھے پتا ہی نہیں
چلا کہ اس صحرا میں کوئی اور بھی موجود ہے
۔۔۔۔۔۔۔تم اس کائنات کو وجود دینے والے خالق کے حضور کھڑے ہواور تمہاری اُس سے
وابستگی کاعالم یہ کہ تم آنے جانے اور سامنے سے گزرنے والوں کا دھیان رکھ رہے ہو"۔
حسن حاضر ہے محبت کی سزا پانے کو
کوئی پتھر سے نا مارے میرے دیوانے کو
مولانا روم عاشق
کی داستان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک عاشق عشق کی مشق سے فراغت پانے اور
پیکرِ عجز و نیاز بننے کے بعد جب درِ یار پر دستک دیتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے:
"کون"؟
باہر سے جواب
ملتا ہے:
"میں"!
اندرسے بھی ایک
جواب ملتا ہے:
"لوٹ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔تم
وصال کی منزل کو نہیں پا سکتے ۔۔۔۔۔تم میں ابھی انا باقی ہے ۔۔۔۔۔۔۔جاؤ پہلے اسے
مارو۔۔۔۔۔۔۔پھر آنا اس در پر"۔
عاشق لوٹ جاتا
ہے پھر کئی سال تک عشق کی الکھ نگری میں بھٹکتارہتا ہے ۔۔۔۔۔اُس پر عشق جیسے راز
کے پردے کھلتے جاتے ہیں۔۔۔پھر جب لوٹ کے آتا ہےاور درِ یار کا سوالی بنتا ہے تو
اُسے ہر طرف وہ ہی وہ نظرآتا ہے۔
یہ اُس وقت کی
باتیں ہیں جب عشق عباد ت سمجھ کر کیا جاتا تھا اور عاشق کی ساری عمر کی کمائی یار
کی ایک جھلک ہوتی تھی۔
مگر آج کا عشق
عبادت سے سفر کرتا ہوا کمینہ بن چکا ہے۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی جذبہ ایسا ہو
جو اس قدر بدنام ہوا ہو۔آج عشق کیسے ہوتا ہے اور عاشقوں کا کیا حال ہے اُس زمن میں
کچھ واقعات یاد آگئے ہیں وہ آپ کے گوش
گزارکر دیتا ہوں۔
وہ میرا یار ہے ۔۔۔۔۔حرکتیں اُس کی یار مار والی
ہیں ۔۔۔۔۔بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔۔۔۔۔مگر یہ اب اُس کی
عادت بن چکی ہے اور یہی یاروں میں اُس کی پہچان ہے ۔۔۔۔بڑا عاشق مزاج بندہ ہے
۔۔۔۔اُس کا معشوقہ کس انتہاپر ہے اُس کا اندازہ اُس کی باتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
ایک دن میرے
ساتھ یونیورسٹی جارہا تھا توبتانے لگا:
"شاہ جی !
ہم نے کبھی غرور نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے آج تک جس لڑکی پر بھی لائن ماری ہے
اُسے پھر کسی اور جال میں پھنسنے نہیں دیا ۔۔۔۔۔۔یوں سمجھ لیں کہ وہ پھر یار کی ہو
کر رہ گئی ہے"۔
عاشقوں کی دوریاں مٹانے کے لیے قاصدکا کردار آج
بھی اُتنا ہی اہم ہے جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا مگر آج کے جدید دور میں اسی جدید
خطوط پر استوار کر دیا گیا ہے ۔پہلے پہل یہ کام کبوتروں سے لیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔پھر
معشوق کے چھوٹے بہن بھائیوں اور سہلیوں کو یہ وراثت منتقل ہوئی ، آج بھی کسی حد تک
موخرالذکر ہی اس رسم کو نبھا رہے ہیں مگر
آج ذرائع جدید ہیں۔۔۔۔سوشل میڈیا اس میں بہت معاون ثابت ہو رہا ہے۔
یہ پچھلے سال کی
بات ہے ابھی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئی تھیں۔۔۔۔ہم کچھ دوست ہاسٹلز کے ساتھ والی
سڑک پر گھوم رہے تھے کہ کچھ دیکھنے اور سننے کو ملا۔۔۔۔۔دو لڑکیا ں جا رہی
تھیں۔۔۔۔۔اُن میں سے ایک دوست فون پر کسی سے بات کررہی تھی ۔۔۔۔۔اُس کی باتوں سے
لگ رہا تھا کہ یہی وہ عظیم ہستی ہے جو دو دلوں کو ملانے کا کام سرانجام دی رہی ہے
۔۔۔۔۔اُس کے ساتھ چلتی اُس کی دوست کی اپنے آشنا سے کسی بات پر لڑائی ہو گئی تھی
۔۔۔۔۔۔اور فون پر بات کرتی لڑکی ثالث کا کردار ادا کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔مگر کچھ بات بن
نہیں رہی تھی۔۔۔۔۔۔اُس کی ناراض دوست اس بات پر مصر تھی :
"تم جو
مرضی کر لو میں ۔۔۔۔۔میں اُس وقت تک با ت نہیں کروں گی جب تک یہ مجھے آئی –لو- یو- نہیں کہتا "۔
ہم دوست ان
باتوں پر ہنستے ہوئے آگے نکل گئے میرادوست پلٹ کر دیکھ رہا تھا اور بتا رہا تھا:
"مبارک ہو
یارو!۔۔۔۔۔۔لگتا ہے بی بی کی صلح ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔اب وہ بات بھی کر رہی ہے اور مسکرا بھی رہی ہے"۔
جاتے جاتےایک
واقعہ اور سنا دیتا ہوں۔
"جڑیں مضبوط نہیں کھوکھلی ہو رہی ہیں"۔ وہ یہ جملہ
اُچھالتا ہوا میرے پاس سے گزر گیا ۔ میں اِ دھر اُدھر دیکھنے لگا کہ یہ اشارہ کس
کی طرف ہے ؟ پھر میری نظریں وہ دور کھڑے جوڑے پہ ٹک گئیں اُن کی ادائیں اُن کے
تعلق کا پتا دے رہی تھیں۔ دونوں عاشق و معشوق درخت کے نیچے کھڑے تھے، عاشق داستانِ
غم سنا رہا تھا اور معشوق اُس کی صدائے عاشقانہ سے بے نیاز درخت کے پتوں سے محوِ
شغل تھی۔ دو ایسے پریمی جن کو ہر راہ چلتے سے عشق لڑانے میں مزہ آتا ہے۔ یہ نہیں تو
وہ سہی ۔۔۔۔وہ نہیں تو کوئی اور سہی ۔۔۔۔۔اس راہ کے مسافر تنہارہنے میں ہتک محسوس
کرتے ہیں۔
مگر میری سوچوں
کے زاوئیے ابھی ابتدائیہ جملے پہ اٹکے ہوئے تھے اور پھر ایک لمبی کش مکش کے بعد
میں اُس سے متفق ہو گیا۔ ہمارے معاشرے میں عام، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں
میں خاص کر پھیلنے والی یہ وبائے عشق کئی امراض کا پیش خیمہ ہےاور چشمِ ما روشن دل
ماشاد اس ناسورکو اپنانے کی روش۔۔۔ہماری اخلاقی اقدارکو تباہ کرتے ہوئے ہمیں تباہی
کی دلدل میں دھکیل چکی ہے اور ہم اسے سر آنکھوں پر سجائے ہوئے ہیں ۔ اسلام نے جو دائرہ مرد و زن کےلیے
کھینچا ہے اُسکے اندر رہنے میں ہی ہماری فلاح ہے۔ اس کے باہر قدم رکھتے ہیں آپ
تباہی کو اپنا ہم سفر پاؤگے۔ جو لوگوں کو دعوتِ گنا ہ دے رہی ہے۔ جس کی صدائے پیہم
ہر دم کہہ رہی ہے آؤ لوگو آؤ۔۔۔میں بہت سی رنگینیوں کا لبالب بھرا ہوا خزانہ ہوں۔
آؤ مجھے سمیٹ لو۔۔۔آؤ لوگو آؤ۔۔۔!
یہ آج کا معاشرہ ہے جس میں سرعام تو عشق بدنام
ہے ہی موسیقی بھی اسے کتے اور کمینے جیسے خطابات سےنواز چکی ہے۔آج کا عشق برگر سے
شروع ہو کر جسم پر ختم ہو جاتا ہے ۔ اُس کے بعد پھر نیا عشق۔۔۔۔۔پھر نیا جسم۔۔۔۔بس
یوں چل رہا ہے یہ بدنامِ زمانہ عشق۔
|