Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Mathal
Full Name: Dj Mathal
User since: 14/Apr/2008
No Of voices: 115
Time to speak up by DJ Mathal
Views:2390 Replies:0
Provincial status a fool's paradise by Dj Mathal
Views:4307 Replies:0
GB’s independence: a lesson from Karbala by DJ Mathal
Views:4929 Replies:0
Stop HR violations by DJ Mathal
Views:5148 Replies:0
The shattered hopes by Dj Mmathal
Views:5157 Replies:0
The youth and our destiny by dj mathal
Views:5045 Replies:0
The tax bomb by DJ Mathal
Views:5204 Replies:0
Hollowness of the system by DJ Mathal
Views:5286 Replies:0
Whispers of a vagabond by DJ Mathal
Views:4809 Replies:0
The essence of freedom by DJ Mathal
Views:4970 Replies:0

Click here to read All Articles by User: Mathal

 
 Views: 2416   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  
گلگت بلتستان میں رائج کھوکھلے نظام میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ خطے میں بسنے والے لوگوں کو باآسانی روزگار فراہم کر سکے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بیروزگاروں کی فوج تیار ہو چکی ہے۔ یہ فوج نفرت کی آگ میں جل رہی ہے اور ہر اس راستے کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہے جس سے انہیں کچھ آمدن حاصل ہو سکے۔ اس خوفناک صورتحال کا آئے روز مشاہدہ ہوتا ہے۔ کسی سرکاری محکمے میں ایک اسامی نکل آئے تو درجنوں نہیں سینکڑوں بیروزگار نوجوان ٹیسٹ انٹرویو کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ اس ایک اسامی کی مثال ایسی محبوبہ کی مانند ہوتی ہے جس کے خواہشمند دیوانوں کی طرح لڑ مرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔ غذر میں نئی جیل کی تعمیر کے بعد چند اسامیاں پیدا ہوئیں۔ ایل ڈی سی کی ایک پوسٹ کے لئے کم از کم 75 امیدوار سامنے آ گئے جبکہ دیگر 19 پوسٹوں کے لئے 600 سے زائد افراد نے درخواستیں دیں۔ سرکاری محکموں میں ملازمت کے خواہشمند تو پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی اتنے ہی ہوتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کی صورتحال مختلف ہے۔ یہاں سرکاری ملازمتوں کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمدن میسر نہیں۔ یہاں آج تک کوئی فیکٹری قائم نہیں کی گئی۔ مقامی لوگوں میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ صنعت کے قیام کا سوچ بھی سکیں۔ بجلی کے بحران نے اقتصادیات تباہ کر دی ہے۔ زراعت کے شعبے میں بڑی گنجائش ہونے کے باوجود اس جانب کوئی توجہ نہیں۔ ہزاروں ایکڑ زمینیں بنجر پڑی ہیں۔ پانی کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود اس علاقے میں بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نظر نہیں آ رہی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر پاکستان نے گلگت بلتستان کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے تو پھر اسے اس خطے کو یوں نظر انداز کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مقامی لوگوں کی جیب خالی ہے۔ لوگ اپنے پیسوں سے فصل تک اگانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ قرضوں کے زور پر جو چند سو ایکڑ زمینیں آباد ہیں وہ بھی علاقے کے معروضی حالات میں فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہیں۔ این جی اوز کا کردار بڑا گھنائونا ہے۔ اے کے آر ایس پی نے اگرچہ محدود سطح پر کچھ ضرور کیا ہے لیکن جتنی دولت ان این جی اوز کو ملکی اور غیر ملکی اداروں سے ملتی ہے وہ اس کا چوتھائی فیصد بھی خرچ نہیں کرتیں۔ تین چوتھائی حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ سرکاری طور پر ملنے والا سالانہ بجٹ اول تو کرپشن کی نذر ہو رہا ہے جو تھوڑی بہت رقم خرچ ہوتی ہے وہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث غیر موثر ہے۔ گلگت اور سکردو میں نظر آنے والی بڑی بڑی مارکیٹوں پر غیر مقامی لوگوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ اس خطے میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا خاتمہ ہوا تو غیر مقامیوں کی ایک کھیپ بھی آنی شروع ہوئی اس وجہ سے نہ صرف لوگوں کی معاشی حق تلفی ہوئی بلکہ یہاں کے لوگ زمینوں اور جائیداد سے بھی محروم ہو گئے۔ اس وقت گلگت شہر میں ساٹھ فیصد کاروبار پر غیر مقامیوں کا قبضہ ہے اس کے علاوہ مختلف اضلاع مثلاً غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں 55 فیصد گوپس میں 50فیصد، سکردو میں 35 فیصد اور چلاس میں 50 فیصد کاروبار غیر مقامیوں کا ہے۔ اس کے علاوہ سوست ڈرائی پورٹ پر صرف پندرہ فیصد مقامی لوگ تجارت کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر بھی پٹھانوں سے کیری پر لے کر کام کرتے ہیں۔اس تمام صورتحال میں سلگتا ہوا سوال ذہنوں میں جنم لیتا ہے۔ یہ گلگت بلتستان کے عوام کی بدقسمتی رہی ہے کہ وہ کسی معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ معاملے کی گہرائی تک جانے کے لئے کوئی فرد زحمت گوارا نہیں کرتا۔ قوم کی فکری رہنمائی کے لئے زندگی کے ہر ذی شعور انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ عوام میں پھیلی ہوئی مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو ختم کرنے کے لئے ارتقاء کی نئی منزلوں کی طرف لے جانے کا درس عام کرے۔ ہم پرانے گھر کو دوبارہ تعمیر کرتے ہیں اور نہ ہی نئے گھر کی عمارت کو بنانے کی طرف جانے دیا جارہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ چھ عشروں سے غلامی کا سفر طے کرنے کے بعد بھی ہم منزل کا تعین نہیں کر سکے۔ شناخت کی بات کرتے ہیں تو مسئلہ کشمیر متاثر ہوتا ہے، حقوق کی بات کرتے ہیں تو کانا ڈویژن رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، جغرافیائی اتحاد کی بات کرتے ہیں تو پاکستان کو خطرہ لاحق ہوتا ہے، مستقبل کی بات کرتے ہیں تو ہمیں غداری کا سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ آخر آپ ہی بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے
 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution