Reply:
Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امريکہ کی پاليسی بہت سے ٹی وی پروگرامز، فورمز اور اخباری کالمز ميں زير بحث رہی ہے۔ اس ضمن ميں لاتعداد افواہيں، بے بنياد سازشی داستانيں اور خطے ميں امريکہ کے اصل اہداف کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گيا ہے۔
آج صدر اوبامہ نے اپنے خطاب ميں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ضمن ميں ايک واضح حکمت عملی اور امريکی مقاصد بيان کرديے ہيں۔
بہت سے لوگ اس خطے ميں امريکہ کے اصل مقصد کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس حوالے سے اپنی پاليسی کی وضاحت کرتے ہوۓ کہا کہ
"ہمارا مقصد بالکل واضح ہے۔ افغانستان اور پاکستان ميں القائدہ کی کاروائيوں کو روکنا اور انھيں شکست دينا تا کہ وہ ان دونوں ممالک ميں مستقبل ميں اپنا اثرورسوخ نہ بڑھا سکيں۔ ہميں اس مقصد ميں ہر صورت ميں کاميابی حاصل کرنا ہے۔"
صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں يہ بھی واضح کر ديا کہ خطے ميں پائيدار امن کے قيام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں کاميابی کے لیے پاکستان کا دفاع اور استحکام کليدی حيثيت کا حامل ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے افغانستان، پاکستان اور امريکہ کے مابين مسلسل سہ فريقی مذاکرات کی اہميت پر زور ديا۔
صدر اوبامہ نے اپنے خطاب ميں پاکستان کے عوام اور ان کی تاريخ کو بھی خراج تحسين پيش کيا اور اس عزم کا اعادہ کيا کہ امريکہ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ ميں پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا جن کی مسلسل کاروائيوں نے پاکستانی معاشرے کو غير مستحکم کيا ہے۔ انھی کاروائيوں ميں محترمہ بے نظير بھٹو کا قتل بھی شامل ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے بائيڈن لوگر بل کا بھی ذکر کيا۔ اس بل کے ذريعے پاکستان کو اگلے پانچ سالوں ميں مجموعی طور پر 5۔7 بلين ڈالرز کی امداد دی جاۓ گی جو کہ فوجی امداد کے علاوہ ہے۔ اس ضمن ميں سالانہ 5۔1 بلين کی امداد پاکستان کو ملے گی۔ اس کے بعد مزيد 5 سالوں کے ليے بھی 5۔7 بلين ڈالرز کی امداد بھی اس بل کا حصہ ہے۔
صدر اوبامہ نے اس نقطہ نظر کو بھی رد کر ديا جس کے مطابق امريکہ افغانستان سے واپسی کے لیے کسی حکمت عملی پر کام نہيں کر رہا۔
"ہم افغانستان ميں اپنے مشن کا محور افغان سيکورٹی اہلکاروں کی تعداد اور ان کی تربيت ميں اضافے کی جانب کريں گے تا کہ وہ خود اپنے ملک کو مستحکم کرنے کا بيڑہ اٹھا سکيں۔ اس طرح ہم افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری ان کے حوالے کر کے اپنے فوجيوں کو واپس لا سکيں گے۔ ہم 134000 افراد پر مشتمل افغان آرمی اور 82000 نفوس پر مشتمل پوليس فورس کی تشکيل کے ضمن ميں اپنی کوششيں تيز کريں گے تاکہ سال 2011 تک ہم اپنے اہداف حاصل کر سکيں"۔
افغانستان کے حوالے سے صدر اوبامہ نے اس بات کی اہميت کو بھی تسليم کيا کہ لوگوں کو سيکورٹی مہيا کرنے کے عمل کو مقامی سطح پر فعال حکومت سازی، معاشی ترقی، تعمير وترقی، کرپشن کے خاتمے اور دہشت گردی کی روک تھام کے ليے متبادل معاشی متبادل کی فراہمی سے منسلک کرنا ضروری ہے۔
اب سے کچھ سال پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور پاکستان محض امريکہ کی جنگ لڑ رہا ہے ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہےکہ دہشت گردی کی لعنت نہ صرف پاکستان ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب قبائلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں پچھلے چند ماہ ميں اس انتہاپسندی اور دہشت پسندی کے عذاب نے پاکستانی معاشرے کے ہر طبقے کو بغير کسی تفريق کے يکسر متاثر کيا ہے۔ دہشتگردوں کی بے رحم کاروائيوں سے کوئ تنظيم، ادارہ اور سياسی جماعت محفوظ نہيں۔ پاکستان کےعسکری اداروں، مذہبی تنظيموںاورسياسی جماعتوںکو ہونےوالے ناقابل تلافی جانی اورمالی نقصان سے يہ ثابت ہے کہ يہ لوگ کسی بھی صورت ميں پاکستان کے خير خواہ نہيں اور ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔
خيبر ايجنسی کی مسجد ميں دھماکہ اور اس کے نتيجے ميں 70 بےگناہ افراد کی شہادت اس مشترکہ خطرے کی غمازی کرتا ہے جس کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے اڈوں کا قلع قمع کيا جاۓ۔
دہشتگردی کا خطرہ پاکستان ميں ايک مسلمہ حقيقت ہے جس کا ہميں ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
|