نومبر 1994 کی يہ دستاويز اس واقعے کے ايک ماہ بعد کی ہے جب افغان پاکستان بارڈر پر طالبان نے سپن بولڈيک کی پوسٹ پر قبضہ کيا۔ اس کاروائ ميں طالبان کی براہراست مدد پاکستان کی فرنٹير کور نے کی تھی۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173492&da=y
(اس دستاويز ميں يہ واضح ہے کہ طالبان کی براہراست سپورٹ پاکستان سے کی گئ جس ميں سب سے نماياں کردار جرنل بابر کا تھا۔)
اس دستاويز سے يہ بھی واضح ہے کہ اس کاميابی کے بعد طالبان کے اثرورسوخ ميں اضافہ ہو گيا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کی سپلائ ميں بھی بتدريج اضافہ ہوتا گيا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ کا فيصلہ صرف اس ليے نہيں تھا کہ افغانستان کی سڑکوں کو محفوظ بنا کرٹرانس افغان گيس پائپ لائن کو ممکن بنايا جا سکے بلکہ پاکستانی قيادت کے نزديک طالبان افغانستان کے اندر اپنے اثر ورسوخ اور طاقت کے ذريعے پاکستانی کو حکمت عملی کے حوالے سے وہ فوجی برتری دلا سکتے ہيں جو وہ بھارت کے مقابلے ميں استعمال کر سکتے ہیں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173496&da=y
(يہ دستاويز اس مراسلے کی ہے جو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے افغان ڈيسک کو بيجھی گئ تھی جس ميں حکومت پاکستان اور آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی قندھار کے قبضے کے ضمن ميں براہ راست مداخلت پر تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ اس مراسلے کے آخر ميں ہاتھ سے لکھا ہوا يہ جملہ بھی موجود ہے کہ "اج صبح جرنل بابر طالبان آپريشن کی کمانڈ کر رہے تھے")
تاريخی دستاويزات سے يہ واضح ہے کہ پاکستانی افسران کو اس بات کا احساس ہو گيا کہ طالبان پر نہ صرف يہ کنٹرول رکھنا ممکن نہيں ہے بلکہ وہ قابل اعتبار بھی نہيں ہيں۔ کچھ موقعوں پر طالبان امن کے قيام کی ضرورت کا اظہار کرتے، اقوام متحدہ سے تعاون کی يقين دہانی کرواتے اور افغانستان کے مسائل کے حل کے ليے طاقت کی بجاۓ پرامن طريقوں کی حمايت بھی کرتے ليکن پھر اپنا يہ نقطہ نظر بھی بيان کر ديتے کہ "جو بھی ہمارے راستے ميں آۓ گا اسے ختم کر ديا جاۓ گا"۔
سرکاری دستاويزات سے يہ بھی واضح ہے کہ امريکہ نے افغانستان کے پرامن سياسی حل کے ليے ہر ممکن کوشش کی صرف اس ليے نہيں کہ امريکہ ٹی – اے – پی سے منسلک کاروباری فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا بلکہ ديگر اہم ايشوز جيسے کہ انسانی حقوق، منشيات کا خاتمہ اور دہشت گردی بھی اس کے ايجنڈے کا حصہ تھے۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173493&da=y
(اس دستاويز ميں امريکی سفير کی سويت خارجہ سفير سے ملاقات کا ذکر موجود ہے جس ميں امريکہ کی جانب سے افغنستان کے مسلۓ کے حل کيے ليے ہر ممکن کوشش کا يقين دلايا گيا تھا)۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173494&da=y
(اس دستاويز سے يہ پتا چلتا ہے کہ کابل ميں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان ميں امريکی قونصل خانے کو ہدايت کی گئ تھی کہ طالبان کے بارے ميں نہ صرف يہ کہ ضروری معلومات حاصل کی جائيں بلکہ اس تنظيم سے رابطہ کرنے کا انتظام بھی کيا جاۓ۔ اس دستاويز سے يہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امريکہ اس وقت بھی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا)
کئ مواقع پر امريکہ نے طالبان سے منشيات، خواتين کے حقوق اور اسامہ بن لادن کو اپنی دہشت گردی کی کاروائيوں کے لیے محفوظ مقام فراہم کرنے کے ضمن ميں اپنے خدشات سے آگاہ کيا
۔
يہ تھيوری کہ سی – آئ – اے طالبان کی امداد ميں براہ راست ملوث تھی، ان دستاويزات سے غلط ثابت ہو جاتی ہے کيونکہ يہ واضح ہے کہ امريکہ کو ہر سطح پر طالبان سے بات چيت ميں شديد مشکلات درپيش تھيں۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173495&da=y
يہ حقيقت جلد ہی واضح ہو گئ کہ طالبان کی حکومت افغانستان اور عالمی سلامتی کے ليے ايک اچھا شگون نہيں تھا۔ منشيات کو غير اسلامی قرار دينے کے باوجود اس ضمن ميں ان کی عملی پاليسی اور القائدہ سميت بے شمار دہشت گردوں کو اپنے اڈے بنانے کی اجازت اس حقيقت کو واضح کر رہے تھے۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے فروری 1996 ميں پاکستان کے وزير خارجہ آصف علی سے اپنی ملاقات ميں طالبان کے حوالے سے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوۓ پاکستان کی جانب سے افغانستان ميں طالبان کی سپورٹ کو مقبوضہ کشمير ميں عسکری گروپوں کو دی جانے والی سپورٹ سے تشبيہہ دی۔ ۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے کہا تھا کہ اگرچہ يہ سپورٹ پاکستان نے اپنے وسيع تر قومی مفاد ميں دی ہے ليکن اس اسپورٹ کے پاکستان اور خطے کے لیے ايسے نتائج بھی نکل سکتے ہيں جس کی نہ تو پاکستان توقع کر رہا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے جن غير متوقع نتائج کا ذکر کيا تھا وہ 11 ستمبر 2001 کو سب پر واضح ہو گۓ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
Reply:
Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
طالبان – کچھ تاريخی حقائق
چونکہ آپ نے افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد طالبان کی تحريک کے آغاز، اور اس دوران امريکی رول کے بارے ميں سوال کيا ہے تو يہ ضروری ہے کہ قياس اور عمومی تاثر کی بجاۓ تاريخی حقائق کی روشنی ميں بحث کی جاۓ۔
ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں
۔
يہ درست ہے کہ امريکہ اور افغان عوام نے روسی انخلاء کا خير مقدم کيا تھا۔ ليکن اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں ايک واضح سياسی خلا پيدا ہو گيا تھا۔ اس خلا کے نتيجے ميں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اقوام متحدہ نے اپنے ايک خصوصی نمايندے محمود مستری کے ذريعے مختلف سياسی دھڑوں کے مابين سياسی مفاہمت کی کئ کوششيں کيں ليکن وہ ناکام ثابت ہوئيں۔ اس ضمن ميں عالمی برادری نے کابل ميں ربانی اور احمد شاہ مسعود سميت کئ گروپوں کے مابين امن معاہدے کی ناکام کاوششيں کيں۔ ان ناکام کوششوں کے بعد افغانستان ميں خانہ جنگی شدت اختيار کر گئ جس ميں ربانی اور مسعود کسی حد تک حکومتی رول نبھا رہے تھے ليکن افغان جہاد کے وار لارڈ جيسے کہ ازبک کمانڈر عبدل راشد دوستم، پاکستان کے تربيت يافتہ گلبدين حکمت يار اور اسماعيل خان اپنے اثر ورسوخ اور طاقت ميں کمی کرنے پر آمادہ نہيں ہوۓ جس کے نتيجے ميں مسلۓ کا پرامن حل ممکن نہيں رہا۔
اس صورت حال ميں بيرونی طاقتوں نے افغانستان ميں عدم تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اپنے سياسی اور دفاعی ايجنڈے کو فروغ دينا شروع کيا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی اصطلاح ميں "اسٹريٹيجک ڈيپتھ" کے طور پر استعمال کرنے کا فيصلہ کيا
۔
ابتدا ميں پاکستان نے پختون کمانڈر گلبدين حکمت يار کو سپورٹ کيا جو افغان جہاد ميں اپنے کردار کی وجہ سے افغنستان کے سياسی منظر نامے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ جب حکمت يار پاکستان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ميں ناکام رہے تو حکومت پاکستان نے مذہبی طالب علموں کی ايک نئ تحريک کو سپورٹ کرنے کا فيصلہ کيا جو کہ طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔
جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ واقعات کا يہ تسلسل ان سرکاری دستاويزات سے ثابت ہے جو ميں يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
(جاری ہے)
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
Reply:
Fawad – Digital Outreach Team – US State Departmen
طالبان – کچھ تاريخی حقائق
چونکہ آپ نے افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد طالبان کی تحريک کے آغاز، اور اس دوران امريکی رول کے بارے ميں سوال کيا ہے تو يہ ضروری ہے کہ قياس اور عمومی تاثر کی بجاۓ تاريخی حقائق کی روشنی ميں بحث کی جاۓ۔
ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں۔
يہ درست ہے کہ امريکہ اور افغان عوام نے روسی انخلاء کا خير مقدم کيا تھا۔ ليکن اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں ايک واضح سياسی خلا پيدا ہو گيا تھا۔ اس خلا کے نتيجے ميں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اقوام متحدہ نے اپنے ايک خصوصی نمايندے محمود مستری کے ذريعے مختلف سياسی دھڑوں کے مابين سياسی مفاہمت کی کئ کوششيں کيں ليکن وہ ناکام ثابت ہوئيں۔ اس ضمن ميں عالمی برادری نے کابل ميں ربانی اور احمد شاہ مسعود سميت کئ گروپوں کے مابين امن معاہدے کی ناکام کاوششيں کيں۔ ان ناکام کوششوں کے بعد افغانستان ميں خانہ جنگی شدت اختيار کر گئ جس ميں ربانی اور مسعود کسی حد تک حکومتی رول نبھا رہے تھے ليکن افغان جہاد کے وار لارڈ جيسے کہ ازبک کمانڈر عبدل راشد دوستم، پاکستان کے تربيت يافتہ گلبدين حکمت يار اور اسماعيل خان اپنے اثر ورسوخ اور طاقت ميں کمی کرنے پر آمادہ نہيں ہوۓ جس کے نتيجے ميں مسلۓ کا پرامن حل ممکن نہيں رہا۔
اس صورت حال ميں بيرونی طاقتوں نے افغانستان ميں عدم تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ اپنے سياسی اور دفاعی ايجنڈے کو فروغ دينا شروع کيا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی اصطلاح ميں "اسٹريٹيجک ڈيپتھ" کے طور پر استعمال کرنے کا فيصلہ کيا۔
ابتدا ميں پاکستان نے پختون کمانڈر گلبدين حکمت يار کو سپورٹ کيا جو افغان جہاد ميں اپنے کردار کی وجہ سے افغنستان کے سياسی منظر نامے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ جب حکمت يار پاکستان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ميں ناکام رہے تو حکومت پاکستان نے مذہبی طالب علموں کی ايک نئ تحريک کو سپورٹ کرنے کا فيصلہ کيا جو کہ طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔
جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ واقعات کا يہ تسلسل ان سرکاری دستاويزات سے ثابت ہے جو ميں يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔
(جاری ہے)
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov