Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: International_Professor
Full Name: International Professor
User since: 22/Jan/2008
No Of voices: 353
 
 Views: 2565   
 Replies: 1   
 Share with Friend  
 Post Comment  

کوریاں سے کوریا تک ''سانحہ گوجرہ'' ڈراپ سین

بینائی بانٹنے والے شہر کی شہرت کی معراج پانے والے شہر میں جب دیدہ بینائوں کی بصیرت و بصارت دونوں رخصت ہوئیں تو گوجرہ شہر سے چند کلومیٹر دور ایک دیہات ''کوریاں'' میں سانحہ رونما ہوا جس کی شہرت اس قدر ہوئی کہ پوری دنیا میں جہاں ہماری بدنامی آمریت کے حوالے سے چہار دانگ عالم پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تعفن اور غلاظت ذرا کم ہوئی تو سانحہ گوجرہ کی بدنامی کی بدبو دنیا بھر نے سونگھی ۔ ''کوریاں'' گائوں میں قرآن کریم کے اوراق جو کہ کسی دینیات کی کتاب سے ردی کی صورت میں بکھر گئے تھے ' اس واقعے کی کوکھ سے سانحے نے جنم لیا کہ اس کی حدت اور شدت رکنے میں نہیں آرہی تھی۔ گھرں کو نذر آتش کرنے اور عیسائی برادری کے سات بندے جاں بحق ہونے کے ساتھ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کو اربوں روپے سے کہیں بڑھ کر بدنامی اور پورے پاکستان کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ سانحے کے بعد تحصیل اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھکی ساری انتظامیہ بمعہ پولیس کو معطلی اور ان کے خلاف پرچے تک کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک صاحب ایمان اور صاحب انصاف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا جس نے انتہائی جانفشانی سے اپنا کام شروع کیا۔ وزیر اعظم ' وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب نے عیسائی برادری کے ہلاک شدگان جن کی تعداد سات تھی پانچ پانچ لاکھ روپے فراہم کیے۔ تقریباً ڈیڑھ کروڑوں کے علاوہ کوریاں گائوں میں ان کے گھروں کی نئے سرے سے تعمیر ' پانی ' گیس ' بجلی کی ترسیل دنوں میں مکمل ہوئی جس پر تقریباً کروڑ روپیہ خرچ آیا جبکہ مکانات کی تعمیر پر بھی دو کروڑ روپے سے کم لاگت نہیں تھی۔ بہرحال روزانہ کھانے پینے کی خوراک کے علاوہ گجرات سے قاف لیگ کے راہنما چوہدری شجاعت حسین نے بھی اپنا رول ادا کیا اور ٹرکوں میں متاثرہ خاندانوں کے لئے ٹی وی سیٹ ' فریج ' ڈی فریزر ' ہیٹئرز اور الیکٹرانک کا قیمتی سامان پہنچایا۔ چشم دید بتاتے ہیں کہ جہاں پر ملک بھر میں صف ماتم والی کیفیت تھی کہ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی تھی کہ اقلیتوں کو پاکستان میں تحفظ نہیں ہے اور یہ کہ مسلمان واقعی ''دہشت گرد'' ہیں ان القاب و آداب پر ہر شہری فکر مندتھا کہ کاش یہ سانحہ رونما نہ ہوتا جبکہ سو سے زائد علمائے کرام کے خلاف مقدمہ درج ہوئے جن میں سے چالیس گرفتار ہوئے اور باقی مفروروں کی زندگی گزار رہے تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں انتظامیہ کے افراد ' اہلکار اور افسران صوبائی حکومت کے غیض و غضب کا شکار ہوئے اور ان کی پیشہ ورانہ فائلوں میں معطلی اور ایف آئی آر جیسا بدنما داغ سج گیا۔ لیکن سانحے کے دوران ایک مسلمان جو کہ شدید زخمی تھا عید الفطر کے ایک روز بعد یعنی منگل کے روز شہید ہوگیا۔ شہید کی نماز جنازہ ایم سی ہائی سکول کے گرائونڈ میں ادا کی گئی اور راتوں رات علمائے کرام اور شہری انجمنوں کے اجلاس ہوئے جس میں پرامن احتجاج کا اعلان ہوا۔
کوریاں گائوں کے عیسائیوں کے لئے امداد اور جذبہ رحم کے علاوہ جب پکے پکائے کھانے اور انواع و اقسام کی اشیاء پہنچتی تھیں تو وہ کہتے تھے کہ کھانا وافر مقدار میں جمع ہے روزانہ فی بندہ ہزار روپیہ نقد ہی دے دیا کرو۔ انہوں نے کوریاں گائوں کو ''کوریا'' بنالیا تھا لیکن اس سانحے کے دوران جہاں پر مسلمانوں کی مٹی پلید ہوتی رہی وہاں پر ایک غیر جانبدار عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جس کا عندیہ نما اعلان اے ایس پی گوجرہ مسٹر ڈوگر نے کیا کہ عیسائیوں کے دو بندے گرفتارتھے جبکہ مسلمانوں کے پچاس سے زائد تھے۔ دوران انکوائری دونوں گرفتار شدگان نے اعتراف جرم کرلیا ہے کہ اس سانحے کے دوران عیسائیوں کے گھروں میں پٹرول چھڑک اور جو ہلاک ہوئے انہیں باہر سے تالے لگاکر اس نیت سے گھر جلائے گئے کہ وہ بھی بھسم ہو جائیں تاکہ دنیا میں یہ تاثر تقویت پذیر ہوکہ مسلمان انتہائی سنگدل ' سفاک اور انسانیت سوز حرکات کے مرتکب ہوتے ہوئے دیر نہیں لگاتے۔ یہ دونوں گرفتار شدگان جو کہ شاہو مسیح کے بیٹے ہیں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ساتھ دو لڑکے اور بھی شامل تھے جو کہ اس روز فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ پولیس ان کی تلاش میں سرگرداں ہے ان دونوں کا اعتراف بے شک حکومت اور مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے ماتھے پر کلنک نما ٹیکے کو دھو نہیں سکتا کیونکہ آخر تو ذمہ داران بھی پاکستانی ہیں۔ بدنامی تو پاکستان کی ہر دونوں صورتوں میں ہوتی رہی اگرچہ ہلا ک شدگان کی زندگیاں اربو ں روپے کے تدارک سے بھی واپس نہیں آسکتیں۔
محمد آصف کی شہادت کے بعدپورے گوجرہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور کاروباری برادری میں انجمن صرافہ کے صدر حاجی محمداشرف نے علمائے کرام کا فیصلہ تہہ دل سے قبول کیا کہ جنازے کے بعد پرامن احتجا ج ہوگا اور علمائے کرام نے اے ایس پی گوجرہ سے مذاکرات کرنے کے بعد پرامن مظاہرہ کیا اور مرحوم کے خاندان کی کفالت کے لئے کچھ مطالبات پیش کیے اور مرحوم کی بیوہ کے لئے پچیس لاکھ روپے کی رقم اور اس کے اہل و عیال کی کفالت کے لئے خصوصی پیکج اور ملازمت کا اہتمام کیا جائے۔ متحدہ علمائے کرام کی قرارداد کے مطابق حفیظ پارک چوک کا نام محمد آصف شہید چوک رکھنے کا اعلان کیا گیا جسے انتظامیہ نے فی الفور تسلیم کرلیا ہے ۔ مرحوم کی تدفین کے اگلے روز یعنی بدھ کے روز علمائے کرام کے اعلان کے مطابق پورا شہر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا اور احتجاجی طور پر شٹر ڈائون اور پہیہ جام تھا۔ علمائے کرام نے مطالبہ کیا کہ حکومت پنجاب صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو گوجرہ نہ آنے دیا جائے بصورت دیگر حالات کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہوگی کیونکہ موصوف نے سابق وفاقی وزراء اطلاعات محمد علی درانی اور شیخ رشید والا کردار انتہائی احسن انداز میں کیا تھا کہ واقعے کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور الیکٹرانک میڈیا پر آکر کہا تھا کہ گوجرہ میں کسی قسم کا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں اور نہ ہی امن و امان خراب ہونے کا کوئی احتمال ہے۔ گورنر پنجاب کی زبان بندی کا بھی مطالبہ کیا گیا کہ موصوف نے توہین رسالت
Û–
قانون ختم کرنے کی جو درفطنی چھوڑی ہے وہ مطالبہ واپس لے ورنہ وہ یورپ کو اس حد تک خوش کرنے کا پروگرا م رکھتے تھے کہ انہیں مستقبل کا صدر کم از کم وزیراعظم لگانے کی سند توثیق عطا ہو جانی تھی۔
سانحے کے دوران شہر پر جو گزری ہے صرف اہل گوجرہ ہی جانتے ہیں کہ روزانہ کسی نہ کسی وی آئی پی کی آمد پر گلیاں بازار حتیٰ کہ قرب و جوار کے دیہاتوں کو بھی سیل کرکے رکھ دیا جاتا تھا۔ بیمار ' بوڑھے ' بزرگ اور طلباء و طالبات تعلیمی اداروں کا منہ تک نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ملازمین کو دفاتر تک رسائی نہیں تھی اور روزانہ کی ہڑتالوں سے کاروباری برادری کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور ملک کی ساکھ اور مسلمانوں کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ عدالتی کمیشن بلاشبہ مبارکباد کا مستحق ہے کہ جس نے انتہائی انصاف پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ داران کو بے نقاب کر ڈالا۔ یہ پہلا کمیشن ہے جس نے سانحہ کے ذمہ داران کے چہروں سے نقاب ہٹائے ہیں ورنہ آج پاکستان میں کسی کمیٹی یا کمیشن کی رپورٹ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئی۔ حکومت کو چاہئے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی انکوائری بھی اسی کمیشن سے کروالیں اور یو این او کو دیئے جانے والے کروڑوں ڈالر بچالیے جائیں

 

 Reply:   This is the slap in the face of those idiots and biased people
Replied by(Noman) Replied on (27/Sep/2009)

This is the slap in the face of those idiots and biased people, who are spreading their venom against Islam and Pakistan since this incident happen.

Please distribute among your lists

 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution