Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: ShahFaisal
Full Name: Shah Faisal Naeem
User since: 11/Nov/2014
No Of voices: 26
 
 Views: 1371   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

سوچی پیا تے بندہ گیا

شاہ فیصل نعیم

ایک زمانے کی بات ہے ایسے کردار ملا کرتے تھےخیر اب بھی ہیں جو کسی سوچ میں کھوئے انسان کو دیکھتے توکہتے:"سوچی پیا تے بندہ گیا"۔ایسی باتیں گاؤں میں زیادہ سننے کو ملتی تھیں اگرچہ شہروں میں بھی تھیں مگرگاؤں کی نسبت کم۔۔۔۔گھر میں اگر ایسا کوئی کردار ہوتا جو سارا دن فارغ رہتا یا اِدھر اُدھر گھوم پھر کر دن گزار دیتا توایسے شخص کو گھر کے بڑے طنزیہ کہا کرتے:"عقل نیں تے موجا ں ای موجاں۔۔۔۔عقل اے تے سوچاں ای سوچاں"۔اگر فارغ شخص میں کچھ عقل باقی ہوتی تو وہ اسے کام میں لاتا اور کسی کام میں لگ جاتاتاکہ خود کو روز روز کے طعنوں سے بچا سکے۔ بچپن میں جب میں ایسی باتیں سنتا تو ہنس کر ٹال دیتا تھا مگر کبھی ایسی باتوں کی گہرائی میں نا گیا تھا۔

یہ علامہ اقبال ہسپتال کے آؤٹ ڈور بلاک کا منظر ہے ایک ایک کر کے آنے والے مریض اب پچاس کے قریب پہنچ چکے ہیں ، گھڑی 12 بجا چکی ہے، ڈاکٹر صاحب ابھی آتے دکھائی نہیں دے رہے۔۔۔۔۔ایک بوڑھا سا آدمی ہے جس کے ہاتھ میں ایک بالٹی ہے جس میں بھنے ہوئے چنے ہیں ۔۔۔۔بابا  کمرے کے عین وسط میں کھڑا ہو کر آواز لگا رہا ہے:"او  سوچو ناں تے چنے کھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔او پتر سوچی پیا تے بندہ گیا۔۔۔۔۔ہاں چھڈ و سوچاں تے چنے کھاؤ"۔

پتا نہیں کیوں مگر اُس بوڑھے شخص کے یہ الفاظ "سوچی پیا تے بندہ گیا" میرے دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں ساتھ ہی حسرتؔ مجھے آکر کہتے ہیں کہ ایسا سوچنے والے تم کوئی پہلے انسان نہیں ہو ہم برسوں پہلے اس سوچ کو قلم سے نکال چکے ہیں۔

زندگی بعد فنا تجھ کو ملے گی حسرتؔ

تیرا جینا تیرے مرنے کی بدولت ہوگا

بوڑھے جو بات کہتے ہیں اُن کی بات میں بڑے راز چھپے ہوتے ہیں اُس سے کئی راہیں نکلتی ہیں مگر اُن راہوں کو پانے کے لیے ایک سوچ کی ضرورت ہے جو اُن کو کھوج سکے۔۔۔۔۔اگر سوچا جائے تو پتا ملتا ہے کہ جب بندہ سوچ میں پڑتا ہے تو تبھی وہ امر ہوتا ہے۔

آپ کو کیا لگتا ہے سیب پہلے زمین پر نہیں گرتا تھا؟ کیا لوگ اُسے گرتا ہوا نہیں دیکھتے تھے؟  کیا اُسے صرف نیوٹن نے دیکھا؟ ایسا بالکل نہیں ۔۔۔۔۔۔سیب پہلے بھی زمین پر ہی گرتا تھا اور لوگ اُسے گرتا دیکھتے بھی تھے مگر جو وہ نہیں کرتے تھے وہ ہے سوچنا۔۔۔۔جنہوں نے نہیں سوچا اُنہیں دنیا فراموش کر چکی ہے اور جس نے سوچا اُس کے بارے میں دنیا آج تک سوچ رہی ہے اور اُسے عظیم نیوٹن جیسے خطاب سے نواز چکی ہے۔

کیا انسا ن کا من نہیں کرتا تھا کہ وہ بھی پرندوں کی طرح ہوا ؤں میں اُڑے ؟   کیا وہ ضرورت محسوس نہیں کرتا تھا ایسی چیز کی جو اُسے ہوا میں سواری کرنے کی صلاحیت دے سکے ؟ مگر ایسا کیا کس نے ؟ اُن رائٹ برادرز نے جنہوں نے ایسا کرنے کے بارے میں سوچا اور اپنی سوچ کو اعمال کا رنگ دے کر تاریخ کے سینے میں امر ہو گئے۔

جب سوچنے والے سوچتے ہیں تو نا سوچنے والے سوچنے والوں کو پاگل کہتے ہیں مگر یہی پاگل ناسوچنے والوں کو کوئی نئی سوچ دے جاتے ہیں جس پر سوچنے والوں کے بعد دنیا صدیوں سوچتی رہتی ہے۔پاگل کہنےمیں لوگوں کا بھی قصور نہیں ہوتا کیونکہ وہ باتیں ہی ایسی کرتے ہیں جو ایک اور ایک دو کہنے والوں کی سمجھ سے بالا ہوتی ہیں ۔مگر پھر بھی انسان کو سوچ کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے سوچنا چاہے کیونکہ سوچ ہی انسان کو بناتی ہے اور امر رکھتی ہے۔

 

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution