Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Noman
Full Name: Noman Zafar
User since: 1/Jan/2007
No Of voices: 2195
 
 Views: 1838   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/07/090713_syber_crime_nj.shtml

 

نہائے گی کیا، نچوڑے گی کیا!

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

پاکستانی وزارتِ داخلہ نے اخباری اطلاعات کے مطابق اعلان کیا ہے کہ سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف غیر شائستہ ، اشتعال انگیز اور بدنیتی پر مبنی خبروں، ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے پر سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت چودہ برس قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا دی جائے گی۔

ایسی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جو انٹرنیٹ کے ذریعے سکیورٹی فورسز کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔بیرونِ ملک اس طرح کی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کے لیے انٹرپول سے بھی مدد مانگی جا رہی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو اس حکم نامے پر عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ایف آئی اے روزانہ کی بنیاد پر ہر انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز ( آئی ایس پیز) کے دفتر میں جاکر ان کا ریکارڈ چیک کرے گی۔

پرویز مشرف کے زمانے کے جس مسودہ قانون کو قلعی کرکے وزارتِ داخلہ نے اب حکم کی شکل دی ہے اس میں تشویش سے زیادہ دلچسپی کے پہلو نظر آ رہے ہیں۔مثلاً یہی کہ بدنیتی ، غیر شائستگی اور اشتعال انگیزی کی تعریف اب ایف آئی اے کے انسپکٹر کی صوابدید پر ہوگی۔ مثلاً یہ کہ مذکورہ ای میلز اور ایس ایم ایس بھیجنے کی سزا کسی کو قتل کر دینے کی سزا کے مساوی ہوگی (لیکن اچھی بات یہ ہے کہ سم بلاک نہیں ہوگی) ۔

مثلاً یہ کہ بیرونِ ملک ایسا مواد شائع کرنے والی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریسز کی شناخت کا ایف آئی اے کے پاس کوئی نظام نہیں ہے۔اس لیے انٹر پول سے مدد مانگی جائے گی۔ فرض کریں کہ بیرونِ ملک ایسی ویب سائٹس اور ای میل ایڈریس کی شناخت ہو بھی جاتی ہے تو انہیں کیسے پاکستانی سائبر قوانین کے دائرے میں عملاً لایا جائےگا۔وزارتِ داخلہ کا حکمنامہ اس بارے میں خاموش ہے۔

کہتے ہیں کہ اس ملک میں موبائیل فونز کی تعداد چھ کروڑ سے زائد اور قانونی و غیر قانونی موبائیل سمز کی تعداد دس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ روزانہ اوسطاً چالیس کروڑ سے زائد ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں۔جبکہ ای میل اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد کم ازکم ایک کروڑ ہے۔اور روزانہ اوسطاً دس کروڑ ای میلز جنریٹ ہوتی ہیں۔جبکہ ایف آئی اے کے عملے کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس کے سائبر کرائم ونگ میں کام کرنے والے پانچ سو سے بھی کم ہیں ۔

ایف آئی اے کو خودکش بمباروں اور مبینہ دہشت گردوں کا بھی ریکارڈ رکھنا ہے۔ وائٹ کالر کرائم اور فراڈز پر بھی نظر رکھنی ہے۔ امیگریشن کا کام بھی کرنا ہے اور اب سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف بھیجے اور وصول کیے جانے والے لاکھوں ای میلوں اور ایس ایم ایسز کی طرف بھی دھیان دینا ہے۔جن میں سے اکثر سنجیدہ پیغامات کی بجائے لطائف کی شکل میں گردش کرتے ہیں اور سرکاری اہلکاروں سمیت جسے بھی موصول ہوتے ہیں وہ انہیں کم ازکم اگلے دس دوستوں کو فارورڈ کرنا ثوابِ جاریہ سمجھتا ہے۔

اس ماحول میں بچاری ایف آئی اے کیا کرے گی۔وزارتِ داخلہ Ú©Û’ جس 'ویلے"˜ سیکشن افسر Ù†Û’ ایف آئی اے Ú©Û’ لیے یہ حکمنامہ جاری کیا ہے کیا اسے یہ محاورہ یاد نہ آیا ہوگا کہ ننگی کیا نہائے Ú¯ÛŒ کیا Ù†Ú†ÙˆÚ‘Û’ گی۔یاد رہے کہ یہ اردو کا معروف اور پرانا محاورہ ہے۔( یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ کہیں اس محاورے پر بھی سائبر کرائم ایکٹ لاگو نہ کردیا جائے)Û”

اس حکم نامے کے اجرا سے اس فراغت کا بھی اندازہ ہوسکتا ہے جس سے وزارتِ داخلہ ایک ایسے دور میں لطف اندوز ہو رہی ہے جب بارودی جیکٹیں دندناتی گھوم رہی ہیں اور وزیرِ داخلہ رحمان ملک کو کچھ نہیں معلوم کہ جیکٹ پوش ان کے دفتر کے باہر پھٹے گا ، ایف آئی اے کے گیٹ پر گرے گا یا بازار میں کسی حساس ادارے کی بس سے ٹکرا جائےگا۔لیکن وزیرِ داخلہ کو اتنا ضرور یقین ہے کہ ایک طنز آمیز ایس ایم ایس خود کش ٹرک سے زیادہ خطرناک ہے۔ثبوت اس کا یہ سوال ہے کہ کیا آج تک کسی مبینہ خودکش بمبار کو چودہ سال قید اور جائیداد کی ضبطی کی سزا ہوئی ہے؟؟؟؟

ایک ایسے ملک میں جہاں عام آدمی کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ جب وہ صبح اٹھے گا تو مٹی کے تیل کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوچکا ہوگا یا آج جو بجلی گئی ہے تو اب کتنے دن بعد آئے گی یا اسکی تین سالہ بچی باہر کھلینے گئی ہے تو کہیں گٹر سے اس کی لاش تو نہیں ملے گی۔یا اس پر فردِ جرم اس کی زندگی میں عائد ہوگی یا پھر پولیس لاک اپ میں تشدد سے مرنے کے بعد اسے مجرم ثابت کیا جائے گا۔اس ماحول میں کیا حکومت یہ توقع رکھتی ہے کہ عام آدمی اس طرح کے ایس ایم ایس بھیجے کہ جناب یوسف رضا گیلانی کی جے۔رحمان ملک زندہ باد۔۔۔جب تک سورج چاند رہے گا آصف تیرا نام رہے گا۔۔۔۔۔۔پاک پولیس پائندہ باد۔۔۔۔

کچھ عرصے پہلے جب ایس ایم ایس بھیجنے پر بیس پیسے ٹیکس لگایا گیا تو لاکھوں کی تعداد میں یہ ایس ایم ایس جنریٹ ہوا کہ پہلے آپ حکومت کو مفت برا بھلا کہہ سکتے تھے اب فی گالی بیس پیسے ادا کرنے ہوں گے۔

یہ تو آزادی اظہار کی علمبردار حکومت ہے جس نے سیاسی قیادت کے خلاف غیر شائستہ ایس ایم ایس اور ای میلز کی وجوہات پر توجہ دیے بغیر صرف چودہ برس قید کی سزا رکھی ہے۔اگر موبائیل ٹیکنالوجی کہیں ضیا الحق کے دور میں عام ہوجاتی اور اس دور میں رحمان ملک ایک عام سرکاری ملازم ہونے کے بجائے وزیرِ داخلہ ہوتے تو ہر دوسرے ایس ایم ایس پر چودہ برس قید کے ساتھ ساتھ دس کوڑوں کی سزا مفت ہوتی۔۔۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution