Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: ziaawan
Full Name: Zia Awan
User since: 7/May/2007
No Of voices: 23
جنرل مشرف کے لیے لاٹری کا ٹکٹ
Views:3618 Replies:1
تشدد کی حالیہ لہر
Views:3136 Replies:1
صدر مملکت کا خطاب توقع کے مطابق ت&
Views:3766 Replies:2
Lal Masjid after operation Silence
Views:3566 Replies:1
Abdul Rasheed Ghazi Shaheed Dead Body
Views:3859 Replies:0
Lal Masjid Seige
Views:2648 Replies:1
Abdul Rasheed Ghazi Last message videos
Views:3278 Replies:0
لال مسجد ڈیل کیسے ناکام ہوئی
Views:3801 Replies:0
آخر حکومت کیا چھپانا چاہتی ہے؟
Views:3217 Replies:1
ابھی بات کھلنے میں دیر ہے
Views:3871 Replies:0

Click here to read All Articles by User: ziaawan

 
 Views: 3618   
 Replies: 1   
 Share with Friend  
 Post Comment  
نو اور دس جولائی میں ویسے تو محض چوبیس گھنٹوں کا فرق ہے لیکن شاید یہ چوبیس گھنٹے پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے لیے ان کی ساری زندگی کے تین اہم ترین مواقع میں سے ایک ہیں۔ انیس سو اٹھانوے میں فوج کے سربراہ کے طور پر دراس اور کرگل کی برفانی چوٹیوں پر چڑھائی تو بلاشبہ آسان تھی لیکن وہاں سے پسپائی یقیناً جنرل مشرف کے لیے بعض حلقوں میں آج بھی شرمندگی کا باعث سمجھی جاتی ہے لیکن یہی پسپائی ان کی زندگی کا وہ اہم پہلا لمحہ تھی جس سے دوسرا اہم ترین لمحہ جڑا ہوا تھا۔ کرگل کی کارروائی جب میاں نواز شریف کے سر نہیں ڈالی جاسکی تو جواب میں فوج کے بندوق بردار سربراہ اور عوام کے مینڈیٹ بردار وزیراعظم کے درمیان جو محاذ آرائی شروع ہوئی وہ جنرل مشرف کے مطلق العنان اقتدار پر منتج ہوئی اور اب آٹھ برس کی عمر کو پہنچ رہی ہے۔ ان آٹھ برسوں میں جنرل مشرف کی قسمت یاور رہی اور ملکی ہو غیرملکی کوئی مسئلہ ان کے لیے بحران نہ بن سکا۔ لیکن نو مارچ کو چیف جسٹس کی عملی معطلی سے نو جولائی کے چار ماہ انہی جنرل مشرف کے لیے قدم قدم پسپائی اور روز بروز رسوائی کا سامان بنتے رہے اور پھر دس جولائی کو لال مسجد پر فوج حملہ آور ہوتی ہے۔ سرکاری دعووں کے مطابق ایک سو تین اور غیر سرکاری دعووں کے مطابق سینکڑوں لوگ کھیت رہے۔ پر اب دس جولائی کے بعد جنرل مشرف لگتا ہے خود اپنے اندازوں سے بھی زیادہ مقدر کے سکندر بن گئے ہیں۔ نو جولائی سے پہلے جنرل مشرف کے امریکی ملجا و ماوٰی بھی نمائندے پر نمائندے بھیج کر بلاوردی اور بے نظیر جمہوریت کی نہ صرف اہمیت انہیں باور کرا رہے تھے بلکہ اس پودے کی آبیاری کے لیے کھلے عام وعظ و نصیحت سے بھی گریز نہ کر رہے تھے۔ نو جولائی تک صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق جنرل مشرف سے مذاکرات کی پینگیں بڑھانے والی بے نظیر بھٹو بھی دس جولائی کے بعد سامنے آنے پر مجبور ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک جہاد فی سبیل اللہ کے نعرے لگانے والی فوج کو اپنا پشتیبان سمجھنے والے جہادی گروپ بھی دس جولائی کے بعد اپنے سہانے سپنوں سے باہر آنے اور فوج کے مقابل کھڑے ہونے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ سترہویں آئینی ترمیم سے جنرل مشرف کو آئین کی دفعہ چھ کی زد سے، جو آئین تاراج کرنے کو موجب سزائے موت بغاوت قرار دیتی ہے، بچانے والی مجلس عمل بھی وکلاء کی تحریک کی آڑ میں جنرل مشرف کی مخالفت کے بجائے تنہا مدارس کے تحفظ کے لیے سامنے آنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ ایسی تنہا کہ ان کے علاوہ کوئی ان کا ساتھی نہیں اقتدار پر بزور بندوق قبضے کی آٹھویں سالگرہ پر پہنچتے جنرل مشرف کی اس وقت اولین ترجیح حقیقتاً ہر قیمت پر دوسری مدت صدارت کا حصول ہے اور اس مقصد کا حصول اگر نو جولائی کو ناممکن دکھائی دیتا تھا تو دس جولائی کو لال مسجد پر فوج کی چڑھائی اور اس کے ردعمل کے واقعات نے عین ممکن بنادیا ہے۔ اب تک کا جنرل مشرف کا دورِ اقتدار اس پر شاہد ہے کہ انہوں نے نو مارچ سے پہلے تک اگر کسی کی خوشنودی کو اہمیت دی تو وہ امریکی قیادت میں مغربی حکومتیں تھیں۔ پاکستان کے عوام کو انہوں نے نہ پہلے کبھی درخورِ اعتناء سمجھا نہ ہی شاید اب سمجھتے ہیں۔ نومارچ اور نو جولائی کے درمیان جنرل مشرف سے صاف شفاف انتخابات اور بلاوردی جمہوریت کا مطالبہ کرنے والے امریکہ اور مغرب اب نہ صرف اس موضوع پر لب سیے ہوئے ہیں بلکہ ببانگ دہل باوردی جنرل مشرف کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ ناجائز ذرائع استعمال کر کے بھی اگر جنرل مشرف اقتدار پر قابض رہے تو اب امریکہ یا مغرب کے ماتھے پر شکن نہ آئے گی۔ لال مسجد آپریشن کی پرجوش حمایت کر کے بینظیر بھٹو نے اپنے لیے حزب اختلاف کے دروازے تقریباً بند کرلیے ہیں اور اب بظاہر ان کے لیے جنرل مشرف کی ہم سفری کا راستہ ہی رہ گیا ہے۔ فوج پر پے درپے حملوں سے ملک میں اس ہنگامی حالت کے نفاذ کا بھی اب جواز پیش کیا جاسکتا ہے جس کا نتیجہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافہ اور عام انتخابات سے پہلے صدارتی انتخاب بنتا ہے۔ صوبۂ سرحد میں تشدد کے پے درپے واقعات وہاں حکومت کی برطرفی اور اسمبلی کی عارضی معطلی کا اچھا بہانہ ہوسکتے ہیں کیونکہ سرحد ہی وہ واحد صوبہ ہے جہاں صدارتی انتخاب کے اعلان کی صورت اسمبلی توڑ کر صدر کا انتخابی کالج نامکمل کیا جاسکتا ہے۔ اسمبلی کی معطلی اور بوقت ضرورت بحالی اس کا اچھا سدباب ہوگی۔ لال مسجد میں مرنے والے لیفٹننٹ کرنل ہارون اسلام اور دیگر فوجیوں کی مانند، خودکش حملوں میں فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں فوج میں جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ بڑھائیں گی اور اگر کوئی اپنے ہی عوام سے بات چیت کا حامی تھا بھی تو وہ خاموش ہوجائے گا۔ پشتون صوبے سرحد میں پنجاب کے سپاہیوں کی اکثریت والی فوج کی تعیناتی اگر ایک طرف وہاں نفرت کو جنم دے گی تو دوسری جانب فوجیوں کی ہلاکتوں پر پنجاب کے عوام میں عبدالرشید غازی جیسوں کے مرنے پر پیدا ہونے والے مخالفانہ جذبات کا بھی تریاق ثابت ہوگی۔ بطور سود، مشرف مخالف پشتون پنجابی اتحاد کی پیش بندی بھی ہو جائے گی۔ اور اس سب کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس کے حق میں سپریم کورٹ کے کسی ممکنہ فیصلے سے ملک میں جس مشرف مخالف تحریک کو مہمیز مل سکتی تھی، اس کا بھی توڑ ہوسکے گا۔ واقعی، نو اور دس جولائی کے درمیان کے چوبیس گھنٹے لگتا ہے جنرل مشرف کے لیے لاٹری کا ٹکٹ بن رہے ہیں
 Reply:   I pray this ticket of lottery
Replied by(Noman) Replied on (20/Jul/2007)
.
Inshah Allah.
and it seems that the game will be reverse for Musharraf as the hate raising against Army cant be beard by Army, and i think now time is coming when Army will sack Musharraf himself.
 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution