لا
ریفارمز وقت کی اہم ضرورت ہے
بیرسٹر امجد ملک
پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام بےحد تضادات کا شکار ہے۰
موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر ، کرپشن ، جانبداری، غیر پیشہ روانہ رویوں اور
انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی
متقاضی ہے۰ ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائیل کے زریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم
ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ہے اور ججز کی کمی
کے ساتھ ساتھ جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت اور نچلی سطح پر عدالتی نظام
کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے۰ سول نظام تو بیٹھتا محسوس ہوتا ہے
کیونکہ مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ۰ ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند
نہیں کیا ' اصلاحات کی دھائی ضرور دی لیکن پارلیمنٹ میں اس موضوع پر سیر حاصل
گفتگو نہ ہوسکی اور ہوئی بھی تو سیاسی مقاصد حائل آئے اور وہ نتیجہ خیز نہ ہوئی
اور قانون تو بحث کے بعد ہی بنتے ہیں اور تو اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زریعے
عدالتی اکابرین نے بھی مشوروں سے اجتناب ہی برتا۰ عدالتی بڑے ستر سالوں میں مثالی
برتاؤ اور زیادہ عرصہ غیر جانبدار رہنے سے قاصر رہے یا یوں کہے انہیں رہنے نہیں
دیا گیا اور انکے ساتھ ' یا ہمارے ساتھ ' اور ' یا ہمارے خلاف' والا معاملہ رہا۰
نظام پہ در پہ سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز نہ
بن سکا۰
برطانیہ نے بھی سول نظام میں خرابیوں کو 1995
میں وولف ریفارمز کے زریعے سیدھا کیا ۰انہوں نی کیس مینجمنٹ کا نظام متعارف کروایا
جس سے ایک کاؤنٹی ہا ضلعے میں ایک ہی عدالت کے زریعے جدید زرائع کے ساتھ مقدمات کا
اندراج اور اخراج شامل تھا اور اس تمام کاروائی کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا خودکار
نظام وضع کیا۰ کیس سے پہلے کچھ شرائط لازماً قرار دیں ٹرائیل سے پہلے سمجھوتے کے
امکان اور اسکے لئے ایک نظام کو متعارف کیا اور چھوٹے درمیانے اور بڑے مقدمات کے
لئے گزارشات مرتب کیں اور انصاف کے حصول کے متبادل زرائع کو استعمال کرنے کے لئے
اے ڈی آر کا پورا باب طےکیا جس میں دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت ، سمجھوتہ اور
صلح صفائی اور باہم رضامندی سے عدالت جائے بغیر مقدمات کا حل موجود تھا۰ ہم ایسی
اصلاحات کے پاس سے بھی نہیں گزرے۰ کچھ عرصہ سے ہندوستان میں لوک عدالتوں کے زریعے
چھوٹے مقدمات ایک دو پیشیوں میں حل کرنے کا نظام رائج ہے اور رواج پکڑ رہا ہے۰
برصغیر کے ممالک میں کیسوں کو لمبے عرصے تک لٹکاکرانصاف کی تاخیر انصاف کی نفی یا
عم دستیابی کے مترادف ہے۰
2018 میں پاکستان میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا
گیا ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں 18 لاکھ سے زائد مقدمات فیصلوں کے منتظرہیں۔
قانونی ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً مہینے نہیں
سالوں درکار ہیں اور 10 سال سے زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے، اعلیٰ عدالتوں میں اس
وقت ججوں کی کل تعدادغالباً 146 ہے جبکہ کل اسامیوں کی تعداد لگ بھگ 167 ہے۔ لاء
اینڈ جسٹس کمیشن پاکستان کی تحقیق کے مطابق جنوری 2018 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں
کہ سپریم کورٹ میں اس وقت اندازاً 38000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ لاہور ہائی
کورٹ میں اس وقت موجود کیسز کی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے جو کہ 150000 سے قریب
اوپر ہے، دوسرے نمبر پر سندھ ہائی کورٹ ہے جہاں محتاط اندازے کے مطابق 94000 کیسز
ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16000 ،پشاور ہائی کورٹ میں 30000 جبکہ بلوچستان
ہائی کورٹ میں صرف 6000 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ پاکستان میں ہر دس لاکھ
آبادی کے لیے 12 جج مختص ہیں جبکہ انڈیا میں یہ تعداد 18 ، برطانیہ میں 51، کینیڈا
میں 75 اور امریکا میں 107 ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق تاخیر کی بڑی وجہ ججوں کی
تعداد کی کمی اور ججز پر کام کا دباؤ ہے، ایک چھوٹے کورٹ کے جج کو دن میں 150 سے
200 کیسز سے نمٹنا ہوتا ہے جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے جبکہ حالیہ برسوں میں وکلا
کی جانب سے ہڑتال کا رجحان بھی مقدموں کے فیصلوں میں تاخیر کا باعث بنتا ہے۔صوبہ
پنجاب میں دسمبر 2017 کے اختتام پر تقریباً دس لاکھ سول اور فیملی کیسز کا فیصلہ
ہونا باقی تھا اور انھیں نمٹانے کے لیے صرف 938 ججز موجود ہیں جس کا مطلب ہے کہ
ایک جج 1000 سے زیادہ کیسز کو دیکھ رہا ہے۔زرائع کہتے ہیں کہ لا اینڈ جسٹس کمیشن
کی سفارشات کے مطابق اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے سول اور فیملی کیسز کے لیے
ججوں کی تعداد کو بڑھا کر تقریباً 2000 کرنا ہوگا تاکہ ایک جج پر 500 مقدمات کی
ذمہ داری ہو۔ لیکن تنقید کاروں کے مطابق نظام میں اصلاحات لائے بغیر کیا ججز کی
تعداد میں اضافہ معاملات میں بہتری لا سکتا ہے ۰ کیا یہ حل عارضی ہےیا مستقل
بنیادوں پر اصلاحات اور آئینی اور قانونی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں ۰
پاکستان کے فوجداری نظام کو دیکھا جائے تو اسکے
بنیادی ڈھانچے میں خرابیاں سرائیت کر چکی ہیں اور مرض دائمی ہے۰ پاکستان پارلیمان کی منظوری سے فوجی عدالتوں کے
زریعے ملک دشمنوں کو تہ تیغ تو کر رہا ہی لیکن یہ انتظام بھی عارضی ہے۰ دیمک کی
طرح چاٹتی خرابیاں نظام کو مفلوج کر چکی ہیں جسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ معیاری
ٹرائیل ایک خواب ہی بن گیا ہےاور اسں خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قومی سوچ
اور قومی اقدامات درکار ہیں ۰ عدالتی ٹرائیل آگر دیکھیں رو سیاست میں گھسے بغیر
پاکستان کی چھوٹی سی تاریخ میں کسی نے انصاف ملنے کی تصدیق نہیں کی۔ 1956 سے 2017
تک، جسٹس مُنیر خان سے اب تک عدالتوں میں لوگ شکایت ہی کرتے رہے کہ مولوی
تمیزالدّین کو انصاف نہیں ملا۰ نصرت بھٹو ضیاء کے مارشل لاء پر انصاف کی بھیک
مانگتی رہیں، بھٹو کا ٹرائل عدالتی قتل ٹھرا اور تو اور بے نظیر کے مقدمے میں اعلی
عدالتی ججز کو بغض فائلز کے اُوپر تیرتا ہوا نظرآیا۰ نوازشریف عدالتوں سے نالاں
تھے، رہے اور اب
تک ہیں ۰ اب تو وہ مجھے "پانامہ کی بجائے اقامہ پر کیوں نکالا " کی
دھائی دے رہے ہیں اور عوام انکو سن بھی رہے ہیں لیکن وہ بھی انصاف کے نظام کے
راستے کے مسافر ہیں اور اب آصلاحات کے داعی ہیں اور نظام عدل کی طرف پیش قدمی کر
رہے ہیں۰
پی سی او ایک مکمل علیحدہ بحث ہے جسکا تدارک
جمہوری نظام کی مضبوطی میں پنہاں ہے۰ 1999 کے مارشل لا کے نتیجے میں جسٹس سعید
الزماں صدیقی کے برعکس درجن بھر ججوں نے ڈکٹیٹر کا حلف لینے میں عافیت سمجھی لیکن
سندھی جج اڑے رہے۰ جسٹس سعیدالزماں صدیقی، ناصر اسلم زاہد اور وجیہ الدّین جیسے
نامی گرامی ججز اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنے گھر لوٹ گئے۰ جوں جوں سینئر جیورسٹ
اسطرح کے طریقوں سے سائیڈ لائین کئے جاتے ہیں اسی طرح خوف سرائیت کر جاتا کے اور
ہر دفعہ کوالٹی کو دھچکا لگتا ہے۰ ظفر علی شاہ کیس میں انصاف کے بر عکس ججوں نے
فوجی ڈکٹیٹر کو آئین تبدیل کرنے کا وہ اختیار بھی دے دیا جس کی اُنھوں نے استدعا
بھی نہیں کی تھی۰ چیف جسٹس افتخار چوہدری کو 9 مارچ 2007 کو نکالا گیا تو اُنھوں
نے سپریم جوڈیشل کونسل پر عدم اعتماد کیا اور انصاف کے لئے سپریم کورٹ گئے۰اب مشرف
صاحب بھی انصاف کی دوہائی دے رہے ہیں اور بادی النظر میں اُنھیں پچھلی عدلیہ سے
انصاف کی اُمید نہیں تھی اب ہے، یا نہیں اسکے لئے انتظار کرنا پڑے گا اگر وہ کمر
درد کے باوجود کبھی عدالت میں آ گئے۰ سابق وزیراعظم نواز شریف ایک دفعہ پھر عدالت
کے شکنجے میں ہیں اور بار بار کی پیشیاں ایک سیاسی بیانیہ تشکیل دے رہے ہیں ۰ ایسی
صورتِ حال میں آزاد فری اینڈ فئیر منصفانہ ٹرائیل سب کی خواہش تو ہے لیکن آرٹیکل
10 اے کی کسوٹی پر پورا اترتا ہوا ٹرائیل مشکل ہے۰ وہ کوشش جس سے جگ ہنسائی کے
علاوہ کُچھ نہیں ملے گا ایک فریبِ نظر تو ہو سکتا ہے یا مسائل سے توجہ ہٹانے کی
میڈیا گری، لیکن اُسے انصاف کے تقاضے پورے کرتا مُنصفانہ ٹرائل کہنا دانشمندی نہ
ہو گا، ایسا ٹرائل جس کی نگرانی بھی ہورہی ہو قانونی نکات اور قباحتوں سے بھرپور
تجرباتی سیریز تو ہے کسی بھی طور پر اعتماد سے بھر پور کاروئی نہیں۰ ٹرائیل اچھا نہ ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۰
یہ خرابی ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ ، تفشیش کاروں اور استغاثہ کے مابین کمانڈ اینڈ
کنٹرول کا تناؤ اور اتحادکی کمی ، اور ایک دوسرے کے محکمے سے حقیقی علیحدگی اور
آپسی ادارہ جاتی رابطے کے بہت بڑے فقدان کی وجہ سے ہے۔ استغاثہ
کے طریقہ کار کو فوری توجہ اور بہتری کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کو پولیس
سےآزاد ایک ایسے پراسیکیوشن کے محکمے کی ضرورت ہے جسکا اپنا صوبائی اور قومی
ڈائریکٹوریٹ ہو، بھرتیوں ، نگرانی اور رہنمائی کا خود مختار نظام ہواور اس میں
تربیت یافتہ پیشہ ور وکلاء بھرتی کئے جائیں جنکا اپنا ایک نظام ہو اور وہ ہر مقدمے
کے مرض اور کمزوریوں کا بر وقت جائزہ لیں ۔ موجودہ نظام انتہائی غیر منّظم ہےاور
تفتیش کار اپنی اچھی اور بری تفتیش پر بضد ہوتے ہیں اور استغاثہ اسکا غیر ضروری
دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ آزاد پراسیکیوشن اگر ملزم کے خلاف مقدمے میں ناقص
تفتیش کے باعث جرم ثابت کرنے کے قابل نہ ہوں تو ایسے مقدمات کو ادارہ جاتی کاروائی
کے زریعے فارغ کرنا چاہیے تاکہ انصاف کے نام پر استحصال اور انصاف کی راہ میں
رکاوٹیں نہ ہوںسور ریاست اور ملزم کے وقت پیسے کا ضیاع روکا جا سکے اور ادارہ جاتی
بدنامی سے بھی بچا جاسکے۰
سیاسی جماعتوں کا نظریہ اور اپنی اپنی پارٹی کی
نظریاتی تقسیم قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے، مُنصفانہ مقدمہ چلانے اور آزادانہ
فردِ جُرم عائد کرنے کو مسترد کرنے جیسے عوامل کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے جن پر
سمجھوتا نہیں کیا جانا چاہیئے۔ پسکستان میں ریاستی پراسیکیوشن سروس کی ضرورت ہے جو
آزادانہ پراسیکیوشن کو یقینی بنائے، فوجداری تحقیقات پر نظر رکھے اور جُرم کے خلاف
حقیقی جنگ کو ناقص، غلط اور غیر محفوظ تحقیقاتی طریقہ کار سے علیحدہ رکھے اورایسے
کیسز کو آگے لے جائے جن پر فردِ جُرم یقینی بنانے کے ذیادہ سے ذیادہ امکانات ہوں۔
مقننہ انتظامیہ اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو تفتیش سے آزاد پراسیکیوشن سیٹ اپ کی
ضرورت کو سمجھنا چاہیئےاور اسکے لئے پالیسی ساز فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۰
دہشت گردی کے مقدمات میں بھی سزا پانے والوں کا
تناسب انتہائی کم اور خطرناک ہےاور فوجی عدالتیں کسی بھی طور پر مکمل یا حتمی حل
نہ ہے۔ نیکٹا کے تحت قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو بھی جانچ پڑتال کے وسیع
اختیارات دینے چاہئیں جو کہ دہشت گردی جیسے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہوں اور حملوں
سے بچنے کے لیئے ایک مربوط طریقہ کار کے تحت ایک دوسرے کے لیئے معاون ہو اور
خدانخواستہ اگر حملے ہوتے ہیں تو ملوث افراد کی کھوج لگانے اور انھیں گرفتار کرنے
میں مُستعد کردار ادا کرے۔ ضرورت اور خطرات کے متناسب فوج ، پولیس اور انتظامی
افسران پر مُشتمل
نیشنل سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ اور ڈیٹا کولیکشن سنٹر وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ جسکا
بنیادی مقصد ممکنہ خطرات کا پتہ لگانا اور پھرمشترکہ کام کرنا ہو۔ ملزمان پکڑنے کے
بعد انکا ٹرائیل ایک چیلنج ہے جسے مل کر قبول کرنا ہوگا۰ انسدادِ دہشت گردی کی
خصوصی عدالتوں کے ججز کو سیکیورٹی کی کمی جیسے سوالات کا سامنا ہے۔ اور سب سے بڑھ
کر گواہ کا تحفظ اور اسکی حفاظت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور اس بات کے بھی شواہد
ملتے ہیں کہ بعض مقدمات میں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار مبینہ ملزم کو دن
دیہاڑے عدالت کے احاطے میں سے دہشت گرد پولیس کے ہاتھوں سے ملزم چھین کر فرار ہو
جاتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر برطانیہ اور امریکہ کی طرح یہاں بھی ہماری انٹیلیجنس
کمیونٹی کی ہائی کمان بھی اپنی انٹیلی جنس اکٹھی کرنے کے طریقہ کار پرسمجھوتا کرنے
سے بچنے اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے انٹیلی جنس کی خبریں، مُخبروں کی
رپورٹ اور حساس شبہات کو شئیر کرنے سے ہچکچاتے ہیں یا مُجھے یہ کہنا چاہیئے کہ وہ
جس قسم کے شائق سسٹم میں کام کر رہے ہیں اس کی تمام ممکنہ کمزوریوں سے آگاہ ہیں۔
ان تمام معاملات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے موجودہ نظام میں اصلاح لانا
چاہیےتا کہ ہم موَثر کاروائی کے زریعے سزا کی شرح کو دوگُنا کرنے کے قابل ہوں اور
گھناوَنے جرائم اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو آزادانہ سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس
کے ماسٹر مائنڈ تک بھی پہنچ سکیں۔ ابھی تو پاکستان فوجی عدالتوں کے ایک عارضی
انتظام سے خطرے سے نپٹ رہا ہے لیکن کسی بھی خطرناک ملزم کا ٹرائل ہمارے موجودہ
نظام کی صلاحیت اور کامیابی پر سوال اُٹھاتا ہے اور وہ اسی طرح کی قابلیت استعداد
اور عدالتی ڈھانچے کا متمنی ہے جس طرح کا خطرے کا لیول ہے۰یہ موضوع سیاسی اختلافات
سے بالاتر ہوکر تجربے کرنے کی بجائے سسٹم کی جانچ پڑتال اور مکمل اصلاح کا مُتقاضی
ہے۔
اسلامی معاشرہ انصاف کی گھر کی دہلیز تک فراہمی
کا داعی ہے۰ سستا ، فوری اور بروقت انصاف عوام کی دہلیز پر ،ووٹ کے لئے اچھا نعرہ
تو ہے ہی لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو خدمت خلق کا عمدہ زریعہ بھی ہے۰کسی بھی
معاشرتی اور اخلاقی طور پر عمدہ اور مضبوط نظام مملکت میں عدالتیں اپنا دروازہ بند
نہیں کرتی اور انصاف کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا اور جہاں پسے ہوئے طبقوں کی بھر
مار ہو وہاں تو ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے جس سے سستا فوری اور منصفانہ انصاف ممکن
ہوسکے۰ مغرب نے بہت پہلے از خود نوٹسز سے جان چھڑالی تھی جس سے 1215 کے میگنا
کارٹاکے مطابق ہائی شیرف کے اعلی عدالتی اور انتظامی ماورائے پارلیمان اور عدالت
کسی طاقت کا تاثر ابھرتا تھا۰ اب سپریم کورٹ میں از خود نوٹسز کا تصور ہی نہیں ہے
اور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن کے زریعے کوئی سائل رجوع کرسکتا ہے لیکن ہائی کورٹ
بھی ازخود نوٹس سے ماورا ہے تاوقتیکہ عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر یا حکم
عدولی ہو ۰ توہین
عدالت کو مقدمات کے فیصلوں پر عملدرآمد تک محدود رکھا گیا اور شخصی آزادیوں عوام میں
آزادی رائے کو اہم مقام دیا ہےتو کہ انسانی حقوق کے کنونشن کی شق 10 کے عین مطابق
ہے ۰ پاکستان میں ازخود نوٹسز اور انکی رفتار وقت اور جج کے مزاج کے ساتھ بدلتی
رہتی ہے اور طاقت جسکی جواب دہی نہ ہو وہ کتنی بھی اچھی ہو وہ خطرناک اور بگاڈ کا
باعث ہو سکتی ہے ۰ دو سو روپے کی پٹیشن ، ازخود نوٹس ، نیوز پیکج یا ٹیلیویژن پر
چلتے ٹکر سے جب کام چل سکتا ہے اور وزیراعظم تک کو الیکشن کمیشن اور پارلیمان میں
عدم اعتماد کے بغیر گھر بھیجنا ممکن ہے تو انصاف کے تقاضے ، شفاف طریقہ کار اور
تحمل جگہ کھونا شروع کردیرا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۰ آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 کے
تحت از خود کاروائی پر اپیل کی عدم دستیابی اور انتظامیہ کو جواب دہی کے لئے مناسب
وقت دینے کے لئے جائز مطالبہ ہے۰ ایسے نوٹسز کے قانون پر عمل درآمد کے لئے اس پر
نظر ثانی اور فل کورٹ کے زریعے گائیڈ لائین مقرر کرنا بروقت ہوں گی ۰ اپیل کے حق
کو مقدم اور موجود رہنا چاہیےاور پارلیمان کو بھی اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنا
چاہیے تاکہ متوازی حکومت اور پارلیمان سے بالا بالا جواب دہی کا تاثر زائل ہوسکے۰ اعلی عدالتوں میں تعیناتی کا طریقہ کار بھی
بحرحال پارلیمان کو طے کرنا چاہیے اور اس کام کے لئے اگر خود مختار کمیشن بھی
تشکیل دیا جائے تو بہتر ہوگا۰ سپریم جوڈیشل کونسل اپنے بننے سے لیکر اب تک ایک بھی
جج کا اوپن ٹرائیل نہیں کرسکا اسکا ایک ہی مطلب ہے یا تو ججز فرشتے ہیں اور ان میں
غلطی کی گنجائش نہیں یا ججز کے احتساب کا نظام ناقص اور موجودہ وقت کی رفتار کے
مطابق موزوں نہیں ہے۰ پارلیمان کو دیکھنا ہوگا اور ایسی شکایات کو چھ ماہ میں مکمل
کرنے کا حدف طے کرنا ہوگا کیونکہ ایسے افراد کو سالوں ایسے فیصلے کرنے کی اجازت
نہیں دی جا سکتے جن کو کرنے کے وہ بادی النظر میں اہل نہ ہوں۰پارلیمان کیونکہ
خودمختار ہے اسلئے وہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کو مد نظر رکھتے ہوئے اصلاحات
کا نظام وضع کر سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کی مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کے
سربراہان کو نکالنے کا ایک جیسا ہی طریقہ وضع کیا جائے تاکہ پارلیمان خود مختار
رہے۰
تاریخ کا ایک قیمتی سبق ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ
نہیں سیکھتے۰ بابا رحمتے طاقت کے کوڑے سے موجودہ نظام کو چھینٹے مار مار کر کچھ
وقتی فیصلے نکال تو سکتے ہیں لیکن وہ نظام کا متبادل نہیں ہوگا۰ ہم حضرت عمر رضی
اللہ تعالی کے دور میں نہیں بلکہ آصف زرداری، عمران خاں ،جنرل مشرف ،نواز شریف ، اور جسٹس ثاقب نثار کے
دور میں رہ رہے ہیں جہاں کسی سے کچھ بھی توقع کیا جا سکتا ہے۰ ۰طاقتور چیف جسٹس
افتخار چوہدری بھی مفاد عامہ کے تحت اس طاقت کےبے لگام گھوڑے سے بے انصافی کے عفریت
پر مکمل قابو نہ پا سکےاور بحالی کے بعد بھی 3 نومبر 2007 کو پھر ایمرجنسی لگ گئی۰
پھر بھی ماننا چاہیے کہ انہوں نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زریعے نئی جوڈیشل پالیسی
دی اور عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کی کوشش کی جو کہ باوجود ریٹرننگ آفیسرز کے
الیکشنز کی وجہ سے انتظامیہ کے ساتھ تضادات اور تنازعات کا شکار بنی لیکن اس پر
عمل ہوا اور غالباًُ ابھی بھی ہو رہا ہے۰ تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایک وزیراعظم کا
عدالتی قتل ہوا ایک کو جلا وطن کیا ، ایک پنڈی کی سڑکوں پہ بے دردی سے ماری گئی
اور آخری وزیراعظم پانامہ کے قضیے میں اقامہ پر چٹکی بجاتے گھر بھیج دیا گیا۰ قوم
طالع آزماؤں کی سات نکاتی کرپشن مکاؤ مہم کے زریعے آنیاں اور عدلیہ کو پی سی او کے
زریعے رام کرنے کی ہوشیاریاں اور ڈکٹیٹرز کی کرپشن اور ہزاروں کرپٹ افراد کو قومی
مصالحتی آرڈیننس کے زریعے عام معافی کے زریعے جانیاں بغور دیکھ چکی ہےاور عوام کی
اجتماعی دانش کو نظر انداز نہیں کیا کا سکتا ۰ دو وزیراعظم گھر بھیجے گئیے لیکن سوئٹزرلینڈ کے
اکائونٹ کی رقم کو کوئی مائی کا لال پاکستان نہیں لا سکا ۰ ستم ظریفی دیکھئے کہ جس
جج نے عدالتوں میں سزا دی اسی جج نے اٹارنی جنرل کے طور پر سوئس حکام کو باور
کروانے کی کوشش کی کہ جنرل مشرف اکاؤنٹ ہولڈرز کو بے گناہ گردانتے ہیں اور انہیں
کلین چٹ دے دی جائےتاکہ موصوف صدارتی الیکشن لڑسکیں اور ایسے ایسی قانونی وارداتیں
قوم پر مسلط کی گئی ہیں کہ لکھنے کے لئے کتابیں درکا ر ہوں گی۰ اسی لئے احتساب سب
کا قومی نعرہ ہے لیکن اس کے لئے ماحول قانون سازی اور سازگار حالات درکار ہیں
۰لیکن یہ سب واقعات مل کر بھی اٹھارہ لاکھ کیسوں میں کمی کا باعث نہیں بن
سکتے۰میثاق جمہوریت ایک اچھا آغاز تھا لیکن بات اب ملک میں بڑے میثاق کی متمنی ہے
ایک ایسا چارٹر جو آئین اور ملک میں قانون کی حکمرانی کی حفاظت کرے اور پاکستان
میں نظام کی سمت کا تعین کرے اور ووٹ کا احترام ہو، اور جب سمت طے کرلے تو اس پر
عمل کرے اور اسں پر عمل کروائے۰ جہاں مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ آئینی فریم ورک کے
تابع ہوں اور رہیں اور کوئی ماورائے آئین قانون اور عدالت اقدامات کرنے کی جرات کو
شش اور ایسا اقدام کرکے کسی بھی قسم کے خوف اور قانون کے بندش سے آزاد نہ ہو۰
بحرالحال بحث سمیٹتے ہوئے یہ طے ہے کہ سول اور کرمنل
نظام انصاف میں بہت ساری اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۰ یہ تجاویز لا اینڈ جسٹس
کمیشن بھی دے سکتا ہے اور پارلیمان اپنی دانش کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے مروجہ
نظاموں کو دیکھتے ہوئے عصر حاظر کے تقا ضوں کے مطابق ایسی آئینی اصلاحات قانون
سازی اور پالیسی ساز فیصلے کر سکتے ہیں جس سی نظام انصاف ، صاحب انصاف اور اسکی
فراہمی کے نظام میں نیوکلیائی تبدیلیاں وقوع پزیر ہوسکیں۰ یہ بات طے ہے کہ پانچ
لاکھ کی مالیت اور چھ ماہ کی سزا تک کے چھوٹے کیسز ایک سے تین پیشیوں میں پائیہ
تکمیل ہونے چاہیے۰ لوگ انصاف کی راہ تکتے تکتے نسلیں گنوا بیٹھے ہیں ۰ احتساب سب
کا ایک قومی مطالبہ بنتا جا رہا ہے اور جوں جوں قومی اکابرین کٹہرے میں ہوں گے وہ
ایک دوسرے کے احتساب کا بروقت کھرا اور کڑے احتساب کا مطالبہ کریں گے ۰ اس وقت سے
پہلے اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ عدم انصاف کا احتمال نہ رہے۰ پارلیمان کو ان قومی
آئینی اور قانونی اصلاحات کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے ، چیف جسٹس لا کمیشن کے
زریعے تجاویز اور حل پیش کریں ۰ عوامی نمئیندگان ، وکلا تنظیمیں بار کونسلز اور
بار ایسوسی ایشن ، سول سوسائیٹی، ہیومن رائیٹس کمیشن ، میڈیا اور قانون دان آئین
ساز اور ماہرین کو اس سلسلے میں تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر نظام میں وہ
تبدیلیاں تجویز کرنا ہوں گی جس سے ان لاکھوں کیسوں کو سالوں کی بجائے مہینوں میں
نپٹایا جا سکے۰ لوگ انصاف کے حصول کے لیے در در ٹھوکریں نہ کھائیں اور سستا فوری
اور مکمل انصاف انکے گھر کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے۰ اصلاحات کے لئے کسی بھی نظام
کو دیکھا جا سکتا ہے ۰چاہے امریکن نظام یا وولف اصلاحات ہر مبنی برطانوی طرز انصاف
ہو یا ہندوستانی لوک عدالتوں کا ماڈل اور یا ہمارا تاریخی ثقافتی اور حقیقت
پسندانہ پنچایتی ماڈل ، بات انصاف کی فراہمی کی ہے۰ باتوں سے اٹھارہ لاکھ کیسز میں
کمی ناممکنات میں سے ہے اور اسں کے لئے سیاسی فیصلہ سازی ، ٹیم ورک ، عدالتی
صاحبان اور انکی سروس استعمال کرنے والے 200 ملیئن عوام کی رائے اور اسکا احترام
اور کام کام اور بس کام کی لگن درکار ہے ۰قائدِ اعظم کا پیروکار ہونے کے ناطے اتنا
کہوں گا کہ برداشت میں ہی قوم کی فتح ہے اور لا ریفارمز وقت کا اہم تقاضا ہیں۰
بیرسٹر امجد ملک برطانوی اے پی ایل وکلاُ ایسوسی
ایشن اور او پی ایف بورڈ آف گورنرز کے چئیرمین ہیں اور انسانی حقوق کا سن ۲۰۰۰ کا
بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں اور ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار
ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں ۰
|