Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: Amjad_Malik
Full Name: Amjad Malik
User since: 15/Jun/2007
No Of voices: 293
 
 Views: 1017   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  

انصاف کے تقاضے پورےکریں اپنا مذاق نہ بنوائیں

بیرسٹر امجد ملک

 

پاکستان آجکل امریکی خاتون کی زناء کی شکایات کی زد میں ہے۔ ‏اسی آڑ میں وارداتئے تاک میں ہیں۔ سیاسی طور پر لوگ چیخ رہے ہیں کہ جناب کرتا دھرتا صاحب “آٹا اور چینی چور ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں اور آپ اور آپکی سبسڈی کے احکامات سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا چکا ہے۔کمیشن پہ کمیشن کے بعد کچھ لوگ زاد سفر باندھ کر لندن ہو لئے ہیں اور یہی لگ رہا ہے کہ قابل یقین اور شفاف احتساب مرشد کے بس کی بات نہیں۔

 

ریپ کی شکائت گرچہ نو سال پرانی ہے لیکن شکائت باعث شرم ہے۔ اقتدار کی راہداریاں بہت خطر ناک اور دشوار گزار ہیں اور مغرب ان راہداریوں کو اپنے لئے کھولنے کے لئے ہر وہ چارہ استعمال کرسکتا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہ ہو۔ہم ٹھہرے اجنبی ہمیشہ دیر کردیتے ہیں ہر اک کام کرنے میں۔ لیکن ایک اسلامی معاشرے میں شکائت کنندہ کی داد رسی کے مناسب مواقع ملنے چاہیے لیکن میں یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا ہوں کہ انکی نئی نویلی شکائت پر ابھی کاروائی ہوئی نہیں اور انکے انٹرویوز پہلے ہی نشر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ محترمہ نے اپنی پٹواری سے مزید سانپ نکالنے کی دھمکی بھی دی ہے اور ایسی شکایات کا ماضی قریب میں ریکارڈ کوئی اتنا حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ شکائت کنندہ نے معافی کی صورت اپنی میڈیا کمپئین پر نظر ثانی کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن ہم تو ہم ہیں جب تک مصالحے لگا لگا سب سنُ نہ لیں صلح صفائی کا سوال قبل از وقت ہے۔ ہم اپنے کپڑے اور حلق پھاڑ لیتے ہیں اور ریمنڈ ڈیوس اور کرنل جوزف مک مکا کو ترجیح دینتے ہیں اور ایسا انصاف نہیں ہوتا جو ہوتا نظر بھی آئے۔

 

جب ایک شکائت پر ابھی نو سال بعد ابتدائی کاروائی شروع ہوئی ہے اسطرح ٹیلی ویژن پر ریپ کی بابت تفصیلی انٹرویوز انتہائی نامناسب اور غیر اخلاقی اور غیر اسلامی رویہ ہے۔ لوگ اپنی فیملی کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہیں اور کسی کے بیان کو افسانہ بنا کر پیش کرنا اور مصالحے لگا لگا کر تفصیلات کی تشریح کرنا غلط اقدام ہے اور اسکے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات ہوں گے۔اس مغربی شکائت کا چربہ مقامی لیول پر بہت خطرناک رجحان کو جنم دے گا۔ اگر کل کو متاثرہ فریق نے اپنا بیان واپس لے لیا یا معاملہ عدالت گیا تو یہ انٹرویوز دونوں صورتوں میں انصاف کے عمل کو متاثر کرنے کے حامل ہیں۔ پیمرا یہ غیر اخلاقی غیر قانونی اور غیر آئینی کام بند کروائے۔ متاثرہ فریق کو انصاف کے عمل کے زریعے داد رسی کا موقع ملنا چاہیے اور متاثرہ ملزم یا فریق کو بھی عدالت آئین میں دئیے گئے حقوق کے مطابق تحفظ دے۔

 

میں حیران ہوں کہ ریاستی ادارے اپنے قومی بڑوں کی گردنیں غیر ملکی ایجنٹوں کے ہاتھ میں سویٹیوں کی طرح دے رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔قانون نافذ کرنے والوں کا کام ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کریں ناکہ سوشل میڈیا پر یکطرفہ ٹرائیل تو ہو لیکن باقی تمام کام ادھورا رہے۔ یہ انتہائی نامناسب اقدام ہے کہ ہم چادر اور چاردیواری کا رہا سہا معاشرتی بھرم بھی ختم ہونے دیں۔ادارے چپ ہیں اور میرے نزدیک یہ مجرمانہ خاموشی ہے جبکہ شکائت کنندہ کی ان تک رسائی واضح ہے۔ طاہرالقادری کیس میں سپریم کورٹ نے پیرامیٹر طے کئے ہیں کہ عدالت سے کیسے رکوع کیا جاسکتا ہے ۔ اتنے سالوں بعد اگر کوئی استغاثہ ہے تو گڈ فیٹھ میں عدالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے نہ کہ نا قابل واپسی ہتک عزت اور ہرزہ سرائی کا میڈیا ئی عمل پہلے ہونے دیں اور داد رسی کی کاروائی بعد میں ہو۔

 

پاکستان میں ویڈیو اور اسکینڈل بلکل نئے نہیں ۔ چئیرمین نیب کی ویڈیو پر بھی لے دے ہوتی رہی اور نیب کے جج بھی میڈیا میں کافی چھائے رہے اور معاملہ ابھی بھی زیر عدالت ہے۔ گورنمنٹ اور حزب اختلاف خاص طور ہر سندھ حکومت کرونا کرائسس کے بعد وفاقی حکومت کیساتھ باہم دست و گریبان ہیں۔ اٹھارویں ترمیم این ایف سی ایوارڈ پر نقطہ چینی ہورہی ہے۔ دفاعی اخراجات بھی کرونا کے باعث متاثر ہیں۔ امریکہ اور چین کرونا کے باوجود ایک پیج پر نہیں ہیں بھارت امریکی شہ پر علاقائی تھانیداری کے لئے پر تول رہا ہے۔ پاک چائینہ کاریڈار دنیا کو کھٹک رہا ہے۔ مذہبی قوانین میں چھیڑ چھاڑکسی بھی وقت آتش فشاں کا منہ کھول سکتی ہے۔ کشمیری عوام بھارتی تسلط کے خلاف نبرد آزماء ہیں اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ارتگل سے فارغ ہوں تو اقوام متحدہ کو لیکر کشمیر آئیں اور انکی داد رسی کروائیں ۔ ان سب کے علاوہ سول ملٹری تعلقات ایک پیج سے ایک کتاب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جمہوریت پارلیمان بلدیاتی ادارے اور ووٹ کا احترام سب ایک چیلنج سے گزر رہے ہیں۔ ایسے میں ٹاپ جج کا مقدمہ ایک دس رکنی بنچ بھی سن رہا ہے۔ جولائی ۲۰۰۷ کا جسٹس رمدے کا فیصلہ یہی بتاتا ہے کہ حکومتی نیت عموماً ججوں کے خلاف اچھی نہیں ہوتی اور وہ ججوں کو پسند ناپسند کی کسوٹی سے گزارنے کی غلطی کرتے رہتے ہیں۔ اعلی عدالتوں کے ججوں کے خلاف جلدی میں ڈالے گئے ریفرنس قانونی تقاضوں سے آراستہ نہیں ہوتے اور جلدی جلدی میں ایسی شکایات خود حکومت کے لئے باعث ندامت اور شرمندگی کا باعث بنتی ہیں۔ جج اور جنرل اپنے بھائیوں کے زریعے احتساب پر تاحال متفق ہیں۔ عوام بحر طور سب کےبے لاگ ، بلا امتیاز ، صاف اور شفاف احتساب کی منتظر ہے لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اصلاحات کے لئے کوئی تیار نہیں۔

 

لیکن بحر صورت قدرت اگر چاہے تو کیا سے کیا نہیں کرسکتی۔مسلہ ہی یہی ہے کہ ہم عوام کے نام پر بڑے بڑے کھیل کھیل جاتے ہیں لیکن کبھی بھی نظام میں اصلاحات نہیں لاتے۔کبھی کبھی تو نو بال پر چھکا بھی مارتے ہیں بلکہ چھکے مار نے والوں کو شامل اقتدار کرکے ساتھ ہی لے آتے ہیں اور کبھی کبھی تو مخالف کو ٹھوک بھی دیتے ہیں۔لیکن اصل مقصدعوام کو خاموش،تسلسل سے حتمی طور پر غیر یقین اور آخری حد تک محب وطن رکھنا ہے انکو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ یہ سب گول مال اور غلط ہیں مگر ہم ہی صحیح ہیں اور گھبرانا نہیں ہے “ہم ہیں نا”۔ قانون کے ساتھ مذاق کے گہرے اثرات ہمیشہ معاشرے پر پڑتے ہیں اور اسے متاثر کرتے ہیں ۔ ریاستی بڑے اور سب سے عقلمند دانشور دھیان کریں اور قانون کی کسوٹی کو مضبوط کریں ، اسکا اعتماد بحال کریں اور اسکے ساتھ اسطرح کے گھناونے اور سنگین مذاق نہ ہونے دیں۔ یہ وہم ہی ہوتا ہے کہ ہم اہم ہیں کیونکہ قبرستان ایسے اہم احمقوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے آپ کو ریاست اور عوام کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے۔

 

 

بیرسٹر امجد ملک برطانوی وکلاء کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے چئیرمین ہیں اور برطانیہ میں انسانی حقوق کا سن ۲۰۰۰ کا بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں اور وہ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں ۔

 

7 جون 2020

 

 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution