انڈیا پاکستان جنگی
جنون
بیرسٹر امجد ملک
پاکسےان اور بھارت
کی سپاہ کے تندو تیز
بیانات جنگی ماحول
پیدا کر رہے ہیں۔ بھارت
میں الیکشن سر پہ ہے
اور اندرونی چپقلش
کسی بڑی رعائت کی اجازت
نہیں دے گی۔ پاکستان کی
نئی نویلی حکومت
اپنے سابقہ بیانات
کی وجہ سے مخمصے میں
ہے۔ "مودی کا
جو یار ہے غدار ہے"کے نعرے
سے پہلے عمران
خان نے یہ نہیں سوچا
ہوگا کہ مودی سے بات
کرنی پڑی تو کیا کریں
گے! بھارت نے وزیراعظم کو مبارکباد
دی اور وزیراعظم
پاکستان نے اسے دوستی کا
ہاتھ سمجھتے ہوئے
محبت بھری چٹھی لکھ ڈالی۔
بھارتی حکومت نے سکینڈل کی
خبروں میں اسے استعمال کیا
اور وزارت خارجہ
ملاقات طے کرکے مکر گئےاور
وزیراعظم پاکستان نے
بددل ہوکر ڈونلڈ
ٹرمپ کی طرح ٹویٹ سے
مودی کے سر پر پتھر
دے مارا۔ انکے
سینا پتی نے پاکستان کو
سبق سکھانے کی بات کے
تاکہ عوام کو اشتعال میں
لاکر جنون میں مبتلا کیا
جاسکےاور اقوام متحدہ
کے اجلاس سے پہلے جنون
کے زریعے کشمیر
میں جاری مظالم
سے چشم پوشی کی جاسکے
۔ تیر
نشانے پر بیٹھا اور اینٹ
کا جواب پتھر سے دینے
کے لئے تیار آئی ایس
پی آر کےجنرل نے یاد
دلایا کہ پاکستان
ایٹمی طاقت ہے اور جنگ
کے لئے تیار ہے۔ اب
اقوام متحدہ میں لفظوں کی
جنگ دونوں ملکوں
کی منتظر ہوگی
اور مظالم اور دہشت گردی
کی گردان میں باہمی ڈائیلاگ
کا موقعہ پس پشت چلا
جائیگا اور پچھلی دہائیوں سے
یہی ہوتا آرہا ہے۔
جنگ مسلے کا
حل نہیں - پاکستان
بھارت کی گیدڑ بھبھکیوں کو خاطر میں نہ
لائے اور تیاری مکمل رکھے
ہمیں انڈیا کی جنگ کی
کھلی دھمکیوں کی
مذمت کرنی چاہیے
کیونکہ پاکستان کی
امن کی خواہش کمزوری نہیں
بلکہ اسکی طاقت ہے کشمیریوں
کا حق خودارادیت
کا مطالبہ اقوام
متحدہ کے اصولوں کے مطابق
ہے۔ عالمی دنیا
کشمیر کے مسلے کے حل
کے لئے اپنا کردار ادا
کرے۔ کشمیر میں جارحیت اور
مظالم بین الاقوامی
دنیا کی توجہ کی منتظر
ہیں- انڈیا الیکشن
کے موسم میں وار ہسٹیریا
پیدا کرکے اس سے سیاسی
فائدہ اٹھانا چاہتا
ہے۔ مگر اتنی جلدی اتنی
سرد مہری اچھی نہیں دونوں
وزیرِاعظموں کو تھوڑا
صبر،احتیاطاورتحمل سے کام
لینا چاہیے۔ ایک
دن مبارکبادیں اور
دوسرے دن وارداتیں
ٹھیک نہیں ۔ ایک ایک
قدم پھونک پھونک
کرلیجئےایٹمی جنگ کی
باتیں آسان اسکی ہولناکیاں تباہ کن ہیں ۔
پاکستان 6 لاکھ کی
فوج کا نہیں بلکہ بائیس
کروڑ عوام کا ملک ہے
جو تمام کے تمام ملک
کے دفاع کے لئے فوج
کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
لیڈرلیڈر ہوتا ہےہر
قوم کو اپنے لیڈر کی
عزت کرنی چاہیے!
ہم پھانسی،قید& جلاوطن
کرکے دل بہلاتے رہتے ہیں
کہ دنیا اس طاقت کےمظاہرےکی
عزت کرےگی ایسے
وقت میں ان لیڈروں کی
قدر اور منزلت کا اندازہ
ہوتا ہے۔سول نظام
کو ملکر مضبوط
کرنا ہوگا ۔ 80 لاکھ اوورسیز
پاکستانی اپنے ملک کے دفاع
کے لئے ہر قربانی کے
لیے تیار ہیں -
جنگ ہوئی تو یہ پاکستان
بھارت کی آخری جنگ ہوگی۔
بہتر یہ ہے کہ جنگ
کی بجائے بھارت
بامقصد بات چیت کی طرف
توجہ دے تاکہ دونوں ممالک
اصل مسائل کی طرف توجہ
دے سکیں۔
آج پاکستان اور
بھارت گھمبیر مسائل
میں مبتلا ہیں ۔ پاکستان
میں توانائی اور
پانی کا مسلۂ سر فہرست
ہے اور بھارت میں لاکھوں
لوگ غربت کی سطح افلاس
سے نیچے زندگی
بسر کر رہے ہیں ۔
فوجی بجٹ اور جنگ کا
خوف دونوں ملکوں
کو تیاری میں مصروف رکھتا
ہے اور یہ تیاری عوام
پر کافی مہنگی
پڑتی ہے۔ بھارت کے فوجی
کشمیر میں جاری جارہیت سے
خوفزدہ ہیں خودکشیاں
بھی منظر عام پہ آرہی
ہیں ۔ کشمیر کا مسلۂ
اندرونی خلفشار اور
مسائل کا باعث بن رہا
ہے۔ جب تک کشمیر کا
مسلۂ باہمی بات چیت کی
طرف حل کی طرف نہیں
جائیگا دونوں ملک ایٹمی فلیش
پوائنٹ پر رہیں گے۔ دونوں
نے جنگ کرکے دیکھ لی
ہے اور انفرادی
سول حکومتی وفود
کا تبادلہ بھی
تبدیلی نہیں لا سکا۔ اب
حکومت افواج اور عوام مل
کر سعی کریں کہ ایک
باعمل اور دونوں ملکوں کے
لئے باعزت حل نکل سکے۔
میرے خیال میں پہلے قدم
پر بیک چینل ڈپلومیسی کے زریعے ایک روڈ
میپ تیار ہو اور پھر
حکومت اور ملٹری اسے ملکر
اپنے عوام کو منظوری کے
لئے پیش کریں ۔ وہ
منظوری پارلیمان میڈیا
، سول
سوسائٹی کی کانفرنسز
اور ریفرینڈم کے
زریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔
جو حالات ہیں اس میں
بھارت کی جاتی حکومت کچھ
دے نہیں سکے گی اور
نئی نئی پاکستانی
حکومت اتنی جلدی ان سے
کچھ لے نہیں سکے گی۔
مشورہ یہی ہی کہ انتظار
کیجئےاور جب انتظار کررہے ہیں
تو بے وقوفی سے پرہیز
کیجئیے ۔ ملک سے پیار
سب کو ہی ہے اور
جنگی جنون کسی کے مفاد
میں نہیں۔ رہا سوال جنگ
کا تو اگر نہ چاہتے
ہوئے بھی ہوگئی تو ہم
تیار ہیں لیکن کشمیر کا
مسلۂ حل ہونا چاہیے اور
اس کے لیے تیاری کی
ضرورت نہیں ہونی چاہیے، حل
ہونا چاہیے ایسے
بھی اور ویسے بھی۔
23 ,ستمبر
2018,
|