تجربہ عمرانیات اور سوہنی دھرتی اللہ
رکھے بیرسٹر امجد
ملک
عمران خان
کا تجربہ عمرانیات
کا یہ ایک سال قوم
کو کتنے سالوں
میں پڑے گا یہ سوچنے
کی بات ہے لیکن اسکی
سپانسر اسٹیبلشمنٹ بغض
نواز میں لت پت ابھی
بھی مضر ہیں کہ “ رل
تے گئے آں پر چس
بڑی آئی اے” اللہ پاک
ہدایت دیں کہ ملک کا
مفاد زاتی مفاد سے بالاتر
ہوسکے (آرٹیکل ۵)۔
سوہنی دھرتی اللہ
رکھے قدم قدم آباد تجھے
اور اسکے بہادر
سپوت جنہوں نے اس ملک
کی ترقی کے لئے دن
رات ایک کردی اور اسے
ترقی کی منزلوں پر ڈالا.
نواز شریف اور اسحق
ڈار اور خاص طور پر
شہباز شریف ان میں سے
ایک سپوت ہے جسکا کام
جسکی سپیڈ اور ترقی کی
رفتار پر دوست تو دوست
دشمن بھی انکے معترف ہیں
۔ وہ
خوش رہیں شاد رہیں اور
آباد رہیں کیونکہ
آنے والے وقتوں
میں ایسے اشخاص
کے مجسمے تراشے
جائیں گے۔ حکومت کے کئے
مشورہ ہے کہ ارے بھائی
کام کریں کام -
تنقید بہت آسان ہے کچھ
بنا کے مکمل کریں گے
تو بات بنے گی ابھی
تو کہانیاں ہی
بریکنگ نیوز بنا کے سنا
رہے ہیں اور مقابلہ کرنا
ہے اصلی وزیر اعلی شہباز
شریف سے ۔ اسنے خادم
اعلی بن کے دکھایا تھا۔
یہ حکومت تو باتیں کروڑوں
کی کر رہی ہے اور
دکان انکی پکوڑوں
کی ہے اور اسکا دو
نمبر وسیم اکرم فیک نیوز
ثابت ہوا ہے۔حکومتیں
قابلیت کارکردگی اور
پرفارمنس پر چلائی جاتی ہیں
الزام تراشی اور طعنے مارنے
سے ڈنگ ٹپایا جاسکتا ہے
قومی ماہ و سال نہیں-کہانیاں بہت
ہیں لیکن یہ بھی حقیقت
ہے کہ پاکستان
میں اورنج ٹرین
سال بھر حکم امتناعی پر
موخرکھڑی رہی حکومت پنجاب اگر
انڈر گراؤنڈ کے لئے گڑھےکھود
دیتی اور کوئی سر پھرا
سٹے آرڈر لے آتا تو
آج میٹرو /اورنج
ٹرین کی جگہ لوگ سوئیمنگ
پول میں نہا رہے ہوتے
یہ پاکستان ہے
اور یہاں جو پراجیکٹ مکمل
کرگیا نام اسی کا ہے
وگرنہ پشاور میٹرو
تو یاد ہی ہے۔
یار لوگوں نے
بہت دیر پہلے کہا تھا
کہ مسیحائی کا
خواہشمند ایک فریب نظر ہے
جس شخص کے پاس نظریہ
ٹیم تجربہ اور وقت نہ
ہو وہ نیوکلیائی
تبدیلیوں کا خواہشمند
تو ہوسکتا ہے قومی راہبر
راہنما یا گیم چینجر کبھی
نہیں ہوسکتا۔ ہم
نے خطے میں امیری کے
امکانات خود اپنی بیوقوفی سے
ضائع کئے ہیں ۔ پاک
چائینہ کاریڈار گوادر
اور آئی ایم ایف سے
ماورا خود انحصاری
پر منحصر معیشت
ایک خواب ضرور تھا لیکن
اسکی تعبیر میں روشن پاکستان
کی نوید تھی۔ غریب ملک
کی آنکھ جب تک اسکے
پیٹ میں اٹکی رہے گی
وہ لوگوں کی تنقید ڈکٹیشن
یا ہدایات پر چلتا رہے
گا۔میں دل سے حیران
ہوں کہ میڈیا اتنا کمزور
کیسے پڑ سکتا ہےجبکہ ۳
نومبر ۲۰۰۷ کی ایمرجنسی کو سب نے ملکرختم
کیا-کبھی نوکری
کا سوال ہے روٹی کا
سوال ہے پاپی پیٹ کا
سوال ہے!ایسے تمام سوالوں
میں اصول قانون
قائدہ قانونی اخلاقی
پیشہ ورانہ اور آئینی زمہ
داری کہیں گم ہوجاتی ہے
پھر سوال کرتے ہیں کہ
لوگ عزت کیوں نہیں کرتے؟آپ
اپنی عزت بحیثیت
قوم خود نہیں کروائیں گے
تو کرائے کے ٹٹو کی
بین الاقوامی دنیا
میں کوئی عزت نہیں ہوتی
اندر ملک میں بھی اور
باہر دنیا میں بھی ۔
نواز شریف سے لاکھ اختلاف
ہوں لیکن انکی قومی قائدانہ
حیثیت اور صلاحیت
سے انحراف پاکستان
کو کمزور کرنے
کے مترادف ہے اور جس
طرح انکو اور انکی جماعت
کو دیوار سے لگایا گیا
ہے وہ جمہوری معاشروں میں
قابل تقلید نہیں۔جو
قومیں اپنے بڑوں کا احترام
نہیں کرتیں تاریخ
انہیں کبھی معاف نہیں کرتی
اور ہم اپنے بڑے تیزی
سے کھوتے جا رہے ہیں
۔ قومی
بڑے حاضر سروس ملازم نہیں
بلیک ملکی دانشور
، لکھاری
، تکنیکی
ماہرین ،اکابرین اور
سیاسی راہنما ہوتے
ہیں جنکی نظر مستقبل پر
ہوتی ہے تنخواہ پر نہیں۔
ابھی بھی کھجلی ہو رہی
ہی شاید لیکن سنبھلنے حکومتیں
چلانا گڈے گڈی کا کھیل
نہیں ۔ تاریخ کا سبق
ہے کہ ہم تاریخ سے
کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ابھی بھی پوچھتے
ہیں معیشت سیاست
اخلاقیات انصاف ، قانون کی
حکمرانی،آئین کی بالا
دستی ،عمرانیات روحانیات
پاکستان میں کمزور اور بیمار
کیوں ہیں ! ارے بھئی قومی
سمت درست کرلیں
دنیا آپ کی عزت کریگی
نہیں تو چلتے جائیں ہجوم
کی طرح اور پھر آخر
میں آئی ایم ایف ہی
حصے میں آتا ہی اور
جنکے حصے میں آتا ہے
انکو کوئی فکر نہ ہے۔
حکومت کی کارکردگی
پر نظر دوڑائیں
تو مہنگائی کی
چکی آنے والی سختیوں کی
نوید دے رہی ہے۔ عوام
نے پٹرولیم مصنوعات
کی قیمتوں میں
اضافے کی شدید مذمت کی
ہے۔حکومت نے عوام پر مہنگائی
کا ایک اور بم گرا
دیا۔مٹی کا تیل اور لائٹ
ڈیزل آئل جن کےصارف غریب
ترین عوام ہیں ان کوبھی
نہیں بخشا اور Pان مصنوعات کی
قیمتوں کو اب تک دوگنا
کر دیا ہے۔ ڈالر تو
ڈالر ٹماٹر کی قیمتیں آسمان
کو چھو رہی ہیں ۔
اس رمضان فروٹ
چاٹ کھانا عیاشی
شمار ہوگا اور لیموں کا
مزہ چکھنے کا تو سوال
ہی نہیں پیدا ہوتا ۔
اگر وزیراعظم کی
پہلی سودن کے کرنے والے
اقدامات والی تقریر
مدنظر رکھیں تو انہوں نے
خود اسکی نفی سو دن
میں اپنے اقدامات
سے کردی ہے۔
ڈالر معاشیات قرضے
ٹیکس وصولی اور مہنگائی انکے
کنٹرول میں نہیں رہے۔ ڈالر
کے مقابلے میں
روپے کی قیمت کم کی
گئی ۔ معاشی ٹیم ٹامک
ٹوئیاں مار کر فارغ ہوئی
اور نئی ہوائی ٹیم زمہ
داری کا تعین کئے بغیر
حاضر خدمت ہے۔ دہشت گردی
سر اٹھا رہی ہے نیکٹا
اور اثاثے بہت دیر بعد
بحال ہوئے ہیں۔ نان سٹیٹ
ایکٹر پر کڑی نظر رکھنے
میں حکومت ناکام
تو ہوئی ہے اور ڈان
لیکس کے بعد اب اس
پر عمل کرنے کی کوشش
بھی جاری ہے۔ دونوں طرف
افغان بارڈر اور ایران کےساتھ
باڑ لگانے کی ضرورت بڑھتی
جارہی ہے۔ خارجہ پالیسی کی
ناکامی اس سے بڑھ کر
کیا ہوگی کہ وزیر خارجہ
اور نااہل ترین
تخت پنجاب کی جنگ میں
مصروف ہیں اور راوی چین
چین لکھ رہا ہے۔ وزیر
اعلی پنجاب کسی طرح بھی
شہباز شریف کا نعم البدل
نہیں بن پائے۔اوورسیز
پاکستانیز اپنے وفاقی
وزیر سے محروم ہیں ۔
زلفی بخاری وزیراعظم
کے کان میں کچھ کہ
سکتے ہیں یا نہیں لیکن
اوپی ایف اپنے چئیرمین سے
اور اسکا بورڈ حقیقی نمائیندگی
سے محروم ہے۔ ایسے میں
کیسے ون ونڈو آپریشن کے
زریعے سرمایہ کاری
ہو ، پارلیمان
میں تارکین وطن
کی نمائیندگی ہو
یا خصوصی عدالتیں
قبضہ مافیا کا خاتمہ کرنے
کے لئے وقوع پزیر ہوں،
سوچ سکتے ہیں لگ تو
نہیں رہا۔ ہمارے
دوست ملک ہم سے دور
اور دشمن ملک ہمارے قریب
آرہے ہیں ۔ اسرائیل کی
خاص دلچسپی دیکھنے
میں آئی ہے۔ فاٹا میں
پختون محاذ پشتونوں
کے دلوں میں ڈینٹ ڈال
رہا ہے اور ایک پشتون
وزیراعظم انکے گلے شکوے دور
کرنے میں ناکام نظر آرہا
ہے۔ بادی النظر
میں حقیقت پسند
راہنما مولانا فضل
الرحمن سڑکوں پہ ہیں گھر
نہیں جارہے ۔ یہ آثار
اس بے چینی کی طرف
توجہ دلاتے ہیں کہ معاملات
ٹھیک نہیں ۔ پچاس لاکھ
گھر کروڑوں نوکریاں
اور اربوں درخت
حکومتی پالیسی پر نظر ثانی
کے منتظر ہیں ۔
کرپشن اس حکومت
کا طرح امتیاز
تھا ۔ آہستہ آہستہ انکی
نظر میں سیاسی کرپٹ ضمانتیں
یا عدالتی بریت
لیکر واپس آرہے ہیں ۔
ڈار صاحب حسن حسین کو
حکومتی اعمال کی وجہ سے
انٹرپول اور برطانوی
حکومت نے تا حال حوالگی
کے لئے حامی نہ بھری
ہے ۔ حکومت کا کرپشن
فری ملک بنانے کا بیانیہ
شکست کھا رہا ہے۔ ماضی
کے کرپٹ حکومت
کے ہر دلعزیز حکومتی ساتھی
ہیں ایم کیو ایم حکومتی
اتحادی ہے اور تو اور
بقول وزیراعظم کراچی
میں بلدیاتی الیکشن
حکومتی جماعت سے ملکر لڑے
گی۔ سرمایہ کار
ہوں یا سیاستدان
حکومت میں آنے کے بعد
سبھی ایک ہیں ۔ گھر
سے پانامہ کمپنیاں
اور جائدادیں نکلی
ہیں لیکن حضرت عمررضی اللہ
تعالی عنہ اور ریاست مدینہ
کی کوئی جھلک ناپید ہے۔
ساٹھ ملین پر سوئٹزرلینڈ خط نہ لکھنے پر
دو وزیراعظم پاکستان
میں اپنی وزارت
عظمی سےگئے یہ تو ساٹھ
ارب کا معاملہ ہے اب
تو جائدادکے ساتھ
ٹریل اورحکومتوں سے
تعلق اور وراثت سب پانی
پانی کرنا ہوگا ڈان ناول
کے دلدادہ مشہور
زمانہ جیورسٹ کو اب انصاف
تو کرنا ہوگا لیکن سانپ
سونگھ گیا ہے سب کو
مدینے کی ریاست کے دل
داروں کو مجال ہے کسی
کے کان میں جوں رینگے
ہو ۔ اسی لئے کہتے
ہیں کرسی پر بیٹھ کر
انصاف اور قانون کی تشریح
مختلف ہوتی ہے۔ ابھی تک
ایک کرپشن کے کیس میں
چند روپے حاصل نہیں کرسکی
یہ حکومت۔ ان سے اچھا
سعودی ولی عہد تھا جس
نے جو کہا وہ کر
دکھایا۔ انکے تو بھاشن سن
سن کان پہ گئے ہیں۔
بحرالحال سیاسی لڑائی
پارلیمان میں ہی ہونی چاہیے۔
کھیل کو دیکھیں تو کھلاڑی
ہونے کے باوجود جسمانی صحت
مقامات اور مواقع نہیں بڑھے۔
کھیلوں کا افزاء اور سکول&پبلک میں
جسمانی صحت کے لئے کئی
جانے والی حکومتی
کوششیں ناکافی ہیں۔
ڈسٹرکٹ ورزشی سنٹر،
سوئمنگ، بچوں کے لئے کھیلنے
کے میدان مواقع
اور مقامات ماضی
کی نسبت کم ہوتے جارہے
ہیں۔ اب تو کئی جگہوں
پر سکول ہی فرسٹ فلور
پر ہیں۔ اب کھیل کود
آئی فون پر ہی ہورہی
ہے۔بحث شدید ہے کہ کرکٹ
کا نظام ادارہ
جاتی رہے یا علاقائی ہو
اور وقت گزرتا جارہا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس ، یونیورسٹی اور بھینسوں
اور گاڑیوں کے ساتھ جو
ہوا وہ خدا کی پناہ
ہے۔ سیاسی افراتفری
کی طرف نظر دوڑائیں تو
عالم یہ ہے کہ عالم
پناہ سب اپوزیشن
لیڈروں کو جیل کے اندر
چاہتے ہیں تاکہ گلیاں ہوجان
سنجیاں تے وچ مرزا یار
پھرے بلکہ پھدکے۔کابینہ
میں جب سے آئی ایم
ایف کے آنے کی نوید
ہے صفائی ستھرائی
جاری ہے۔ دہری شہریت کبھی
غداری تھی اب جنکے پیچھے
ڈنڈا ہےتو وہ سب قابل
قبول ہیں تب ہی زمانہ
قریب اور جدید میں معین
قریشی شوکت عزیز حفیظ شیخ
اور باقر جیسے لوگ آتے
جاتے ہیں اپنی مارکیٹ لگاتے
ہیں سودا بیچتے
ہیں اور نکلنے کی کرتے
ہیں کوئی انکو پوچھنے والا
کوئی نہیں -دوہری
شہریت کا قانون پاکستان کے
پینل کوڈ کی طرح غریبوں
کے لئے ہے عدالتیں غریب
افضال بھٹی ، ڈاکٹر اشرف
چوہان اور رحمن ملک جیسے
مڈل کلاس کے لوگوں کو
رگڑا لگاتی ہیں معین قریشی
اور شوکت عزیز اس کسوٹی
سی اپنے گارنٹرز
کی ایماء پر صاف بچ
نکلتے ہیں۔باتیں ہزار
لیکن خلاصہ یہ کہ ملک
کی گاڑی چل نہیں پا
رہی اور عوام نواز شریف
کی گاڑی روک رہے ہیں
کہ واپس آئیں اورملکر قومی
گاڑی کو دوبارہ دھکہ سٹارٹ
کریں۔
مریم نواز شریف
کا سیاسی عہدہ
اور انکی بڑھتی
ہوئی مقبولیت بہت
سوں کو خائف کررہی ہے-
جس طرح انہوں نے سوشل
میڈیا کے زریعے کردار کشی
کی بجائےکردار سازی
کی طرف توجہ دی ہے
قابل تحسین ہے۔ اسنے اس
خلاء کو پورا کیا ہےجونوجوانوں
میں دعوؤں کے باوجود بدرجہ
اُتم موجود تھا۔انکا
سیاسی عہدہ ایک خوشگوارجھونکا ہے۔بلاول بھٹو
زرداری کی پارلیمان
میں سیاسی تقریر
آنے والے وقت میں ایک
پراثر پارلیمانی رول
کی نوید دے رہی ہے۔
روشن پاکستان بنانا
ہم سب کا فرض ہے
۔لوگ سوال کر رہے ہیں
کہ کیا نواز شریف یاد
آرہا ہوگا ۔ ضمیر کا
قیدی نواز شریف ایک دفعہ
پھر آزادی مارچ
کرتے ہوئے کوٹ لکھپت جیل
میں قید ہوگیا تمام میڈیا
اس سے آخری وقت تک
جھجھکتا رہا ۔ جب صحافت
مٹھائی والوں کے ہاں گروی
رکھوادی جائی تو امید فردا
کیسی۔ یہ بات طے ہے
کہ دلوں کے وزیراعظم کو زیادہ دیر تک
پابند سلاسل نہیں
رکھا جا سکتا جبکہ سرکار
نام کی کوئی چیز بین
الاقوامی اور معاشی محاز پر
پاکستان میں گرفت کرتی نظر
نہ آرہی ہو۔میرے
خیال میں نواز شریف کا
یاد آنا ایک انڈر سٹیٹمنٹ
ہے- یہ آنکھوں میں گھونسے
دے دے کر روئیں گے
ایک دن مگر مانیں گے
نہیں اور مانیں گے تو
ہی بات بنے گی کیونکہ
ان کا پالا کسی اور
طرح کے لیڈر سے پڑا
ہے جو انکی رگ رگ
سے واقف ہے۔ یہ مذاق
قوم کو بڑا مہنگا پڑا
ہے ! آخر کب تک یہ
سب سہنا پڑے گا یہ
قوم کی برداشت پہ ہے
کہ کب تک سہ سکتی
ہے یہ نا تجربہ کار،
غیر اخلاقی نااہل
اور غیر زمہ دارانہ حکومت
ہے ! دیکھئے اور
انتظار کیجئے - لیکن
ایک چیز طے ہے کہ
ملک کا بہت نقصان کیا
اس غیر یقینی تجربے نے
اسکا مجھے دکھ رہے گا
۔مزے داری کی بات یہ
ہے کہ “ہن او عدالتاں
وی اوہ نہیں رہیاں”۔
آج جمہوری سوچ
پر قائم لوگ شاید کم
ہوں لیکن ساتھ ضرور ہیں
ہیں لیکن کل زمانہ ہوگا
وقت یہ بھی گزر جانا
ہے۔ ووٹ کو عزت دو
کی تحریک پہ لوگ فسانے
لکھیں گے اور تاریخ دان
منہ میں انگلیاں
ڈالے تحریر کریں
گے کہ ایسا بھی ہورہا
تھا اور سب کہاں تھے
- فیض احمد فیض ،حبیب جالب،عاصمہ
جہانگیر ناپید ہیں اور ایسی
نرسریاں بانجھ ہوتی
جارہی ہیں جو ایسے ہیرے
پیدا کریں اور بہادر بچھڑے
نظریاتی جمہوری ساتھی
یاد آرہے ہیں جنہوں نے
اس ملک کے لئے قربانیاں
دیں - فاطمہ جناح
بے نظیر بھٹو نواز شریف
سر فہرست ہیں ۔منزل ابھی
دورہےراستہ پرخطر دشوار
اور کھٹن ہے اللہ حامی
و ناصر
ہو۔جو بھی ہو ملک کے
لئے اچھا ہو۔ سوہنی دھرتی
اللہ رکھے قدم قدم آباد
- قدم قدم آباد تجھے ۔
قدم قدم آباد ۔۔۔
بیرسٹر امجد ملک
ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ
کے صدر اور ہیومن رائیٹس
کمیشن اور سپریم کورٹ بار
پاکستان کے تاحیات رکن ہیں
اور ہیومن رائیٹس
لائیر آف دی ائیر 2000 کے ایوارڈ کے حامل
ہیں
۱۱ مئی ۲۰۱۹
|