"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining
what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Latest Top 3
No Article has been posted in last 30 days
Views: 2149
Replies: 0
Share with Friend
Post Comment
12اکتوبر1999ء کا یوم سیاہ اور 27دسمبر2007ء کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی ایک جیسی تقریب ہو کے رہ گئی ہے۔ برسی پر تو میں دسمبر میں بات کروں گا۔ اس بار12اکتوبر1999ء کے یوم سیاہ کو یوم دفاع جمہوریت کے طور پر منایا گیا۔ نواز شریف13اکتوبر کو بیرون ملک کے ایک ماہ کے دورے کے بعد پاکستان تشریف لائے۔ ایک ماہ کی مدت کی سیاسی سیاحت کو دورہ نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے بھی صدر زرداری کی طرح عید باہر منائی۔ سعودی عرب میں ایک دن پہلے عید کر کے وہ وطن واپس آ سکتے تھے۔ اسی طرح وہ 13اکتوبر کی بجائے 12اکتوبر کو واپس آ سکتے تھے۔ انہوں نے ائرپورٹ پر بھی میڈیا کو ملنے سے گریز کیا اور دوسرے دن ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی اچانک بغیر وجہ بتائے ملتوی کر دیا۔ چلیں یہ تو ہوا کہ 12اکتوبر کو یوم دفاع پاکستان منایا گیا۔ اس کےلئے بھی کئی مقامات تبدیل کئے گئے۔ وہاں بھی میڈیا کے ساتھ جھڑپ کے بعد اجلاس شروع ہوا جبکہ اس میں قصور میڈیا کے کچھ آمرانہ مزاج کے لوگوں کا بھی ہے جمہوریت کے ایوانوں میں آمریت در آئے گی تو پھر یہ تو ہو گا۔ کشیدگی ہر کہیں سرکشیدہ لوگوں کی وجہ سے بڑھتی ہے۔ اجلاس زیادہ مسلم لیگ ن کے لیڈرز کے لئے نعرے بازی میں گزر گیا۔ کچھ نعرے بازی سیاسی اور سرکاری خاندانوں کے لڑکوں کے لئے بھی تھی۔ موروثی سیاست کا زور پیپلزپارٹی میں بھی ہے بھٹو کا داماد صدر ہو سکتا ہے تو نواز شریف کا داماد کیپٹن صفدر بھی حکومت میں آ سکتا ہے۔ صدر زرداری آجکل آصفہ زرداری بھٹو کو آگے لا رہے ہیں۔ نجانے بختاور بی بی کہاں ہیں اور کیسی ہیں؟ کس جمہوریت کا دفاع ہو رہا ہے؟ پہلے جمہوریت لاﺅ پھر دفاع کرو جو لوگ اپنے لئے نعرے مروا رہے تھے وہ مشرف کے آمرانہ دور میں کہیں نظر نہ آئے تھے۔ سیاسی پارٹیوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے مگر وہ باہر جمہوریت لانے اور پھر اسے بچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں یوم دفاع جمہوریت منانا بہت ضروری اور اہم ہے۔ ہم نے تو مشرف کے 9برس میں ہر روز یوم دفاع جمہوریت منایا ہے۔ آج بھی جو جمہوریت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے جلاوطنی کی راحتیں پائیں مگر ہم نے ہموطنی کی اذیتیں برداشت کیں۔ جمہوری دور میں بھی ہمارے نصیب میں اپوزیشن کا کالم نگار ہونا لکھا ہے تو وہ بھی ہمیں قبول ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ کبھی مارشل لا نہ آئے۔ جنرل کیانی نے بغیر آئین توڑے اور حکومت پر قبضہ کئے آئینی کردار ادا کیا ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی میں ان کی کوششوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ ان کے اس اقدام سے جنرل مرزا اسلم بیگ یاد آ گئے ہیں جنہیں تمغہ
¿ جمہوریت عطا کیا گیا مگر جنرل کیانی کے خلاف کیری لوگر بل میں شرائط لائی گئی ہیں۔ جنرل مشرف کے خلاف تو امریکہ کو جرات نہ ہوئی تھی جب جمہوری دور آتا ہے تو امریکہ فوج اور سیاست میں تصادم کےلئے کیوں سازشیں کرتا ہے ان سازشوں میں پاکستانی جمہوری حکمران بھی شامل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مضبوط کرنے کےلئے تو کچھ نہیں کرتے فوج کو کمزور کرنے کےلئے امریکی سہارا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ نجانے یہ لوگ جرنیلوں سے کیوں ڈرتے ہیں جبکہ سیاستدان چاہیں تو کوئی جرنیل کبھی حکومت میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور کبھی ایک دن حکومت نہیں کر سکتے۔ میں سیاستدانوں کی حمایت میں یہ بات کر رہا ہوں کہ وہ ایسا کردار ادا کریں کہ ان کی حکومت بچانے کےلئے لوگ سڑکوں پر آ جائیں اور سارے سیاستدان اکٹھے ہو جائیں۔ اس موقع پر تو اکٹھے ہو جائیں ان کے جانے پر لوگ مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور سیاستدان جرنیلوں کے ذاتی ملازم بن جاتے ہیں۔ 12اکتوبر 2009ء ہرصورت میں 12اکتوبر 1999ء سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہے۔ بھٹو اور نواز شریف نے ایک جونیئر جرنیل کو آرمی چیف بنایا اور دونوں نے ان کے خلاف مارشل لا لگایا۔ جنرل ضیا نے جس طرح اپنے وزیراعظم جونیجو صاحب کو چین کے دورے کے دوران برطرف کیا نواز شریف نے اپنے آرمی چیف کو سری لنکا کے دورے کے دوران برطرف کیا۔ یہ کام اچھے طریقے سے ہو سکتا تھا۔ جنرل مشرف تو اس وقت فضاﺅں میں اسیر تھے۔ جب نواز شریف کو حراست میں لے لیا گیا۔ ایک منتخب وزیراعظم کے ساتھ یہ سلوک ہم سب کےلئے شرمناک ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے اچھی ہے اس کے بعد اسے مزید محتاج بھی سیاستدان بناتے ہیں۔ اس طرح حکومتیں تو نہیں چلتیں۔ صحت مند مضبوط غیرت مند اور بے غرض طرز حکومت ہی ساز گار ہے۔ بے چارے پاکستانی عوام کےلئے آمریت کسی کام آئی نہ جمہوریت کچھ کام آئی۔ ہم آمریت اور جمہوریت دونوں سے ناآشنا ہیں۔ آمرانہ جمہوریت اور جمہوری آمریت دونوں آئین کو اپنی حمایت میں لے آتے ہیں۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ادارے کے طور پر فوج کو اپنا ماتحت بنانے والوں کو اسے معزز اور معاون بنانا چاہئے۔ عدالت بھی ایک ادارہ ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف اقدام پر پورا عدالتی ادارہ متحد ہوا تو جنرل مشرف کو کوئی نہ بچا سکا۔ آج بھی وہی اقدام ہو رہے ہیں جو پہلے ہوتے تھے لہذا 12اکتوبر ایک علامت بن چکا ہے تو کوئی نشانی سیاستدان بھی قائم کریںنہ چینی نہ آٹا نہ بجلی نہ امن و امان۔ دہشت گردی بڑھ گئی۔ ہم امریکہ کے زیادہ غلام ہو گئے۔ جمہوریت کے ساتھ جو کچھ سیاستدان کر رہے ہیں کسی نے نہ کیا ہو گا۔ مارشل لا لگانے والا جرنیل بھی سیاستدان بن جاتا ہے۔ سیاستدان اخبارات میں جرنیل بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی ہے۔ اب صدر کے پاس وہی اختیارات ہیں جو جنرل مشرف کے پاس تھے تو فرق کیا ہے؟ جمہوریت کیا ہے اور آمریت کیا ہے؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ملک میں کچھ لوگ یوم دفاع آمریت منائیں۔ پنجاب اسمبلی میں 12اکتوبر کے خلاف قرارداد 12اکتوبر کو پاس نہ ہو سکی جبکہ حکومت بھی ان کی ہے۔ محترمہ سیمل کامران کی نشاندہی پر کورم نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوا۔یہی سرکاری ممبران اسمبلی شریف برادران کی کورنش بجا لانے میں آگے ہی آگے حاضر رہتے ہیں۔ 13اکتوبر کو 12اکتوبر کے خلاف بمشکل قرارداد پاس ہوئی ہے!
|
No replies/comments found for this voice
|