Search
 
Write
 
Forums
 
Login
"Let there arise out of you a band of people inviting to all that is good enjoining what is right and forbidding what is wrong; they are the ones to attain felicity".
(surah Al-Imran,ayat-104)
Image Not found for user
User Name: dr._asmat_hayat_alvi
Full Name: Dr. Asmat Hayat ALVI
User since: 27/Sep/2009
No Of voices: 194
 
 Views: 1982   
 Replies: 0   
 Share with Friend  
 Post Comment  


قومی سلامتی کو درپیش
خطرات

تحریر: سید منورحسن، امیر جماعت اسلامی پاکستان


پاکستان اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہاہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جس سے محسوس ہوکہ یہ گزرے لمحے سے بہتر ہے۔ وطن عزیز کا قافیہ تنگ کرنے اور ملت اسلامیہ پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کی کوشش ہورہی ہے۔ بھارت نے اپنے تمام مگ طیارے مشرقی بارڈر پر لگادیے ہیںاوراعلان کرکے فوج میں اضافہ کررہاہے۔

لیکن امریکی صدر کی طرف سے مسلسل یہ لوری دی جارہی ہے کہ پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں ہے چنانچہ فوج کوبارڈر سے ہٹاکر سوات و بونیراور وزیرستان و کوئٹہ میں تعینات کیاجائے اور تمام تر توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز رکھی جائے۔ دوسری طرف امریکی جنگی طیارے اسلام آباد میں پرواز کررہے ہیں، اس کا سفارتخانہ ایک چھاونی کا نقشہ پیش کررہاہے اور ایلیٹ میرینز کے نام پر جنگجو فوجیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پر لائی جارہی ہے تاکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور جی ایچ کیو پر ایسی دسترس حاصل ہوجائے کہ بھارت ادھر سے حملہ کرے تو یہاں سے جواب دینے والا کوئی نہ ہو۔

غضب خدا کاکہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر امریکہ Ú©Û’ جنگی طیارے آجارہے ہیں، اڑانیں بھر رہے ہیں مگر کوئی روکنے ٹوکنے اور حقیقت حال بتانے والا نہیں۔ ائیر پورٹ Ú©ÛŒ اتھارٹی سے رابطہ کرکے پوچھا جائے کہ امریکی جنگی طیارے اتنی بڑی تعداد میں آاور جا رہے ہیں، یہ ماجرا کیا ہے؟'Ù¹Ú© Ù¹Ú© دیدم دم نہ کشیدم"˜ Ú©ÛŒ تصویر بنی اتھارٹی Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ خبر ہی نہیں ہے اور یہ وہ جنگی طیارے ہیں جو رسد، Ú©Ù…Ú© Ú©ÛŒ فراہمی، بڑی تعدادمیںفوجیوں Ú©ÛŒ منتقلی اور بھاری اسلحہ اور سازو سامان لانے Ú©Û’ لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اسلحہ کہاں ذخیرہ کیا جارہاہے اوراسلام آباد Ú©Û’ اردگرد کون سا میدان جنگ ہے جس Ú©Û’ لیے یہ فوجی لائے جارہے ہیں اور یہ طیارے یہاں کیا کر رہے ہیں۔

کیا اسلام آباد Ú©Û’ سفارتخانے Ú©Ùˆ منی پنٹا گون اور فوجی چھاونی بنانے اور اسلام آباد اور کہوٹہ Ú©Ùˆ' وار زون"˜ میں تبدیل کرنے Ú©ÛŒ باتیں درست ہیں؟ کوئی ہے کہ جس Ú©Û’ دل پر دستک دی جائے، اور کوئی ہے جو پارلیمنٹ میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوکر اس پرسوال کرے اور حکومتی بنچوں پر بیٹھا ہوا کوئی شخص اس کا جواب دے اور لوگوں Ú©ÛŒ تسلی کا Ú©Ú†Ú¾ ساما Ù† کرے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں دستِ ہالبروک پر بیعت کیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور اپوزیشن رہنماوں Ú©Û’ حسن انتخاب Ú©ÛŒ داد دیجیے کہ ان Ú©Û’ آداب بجالانے Ú©Û’ لیے ہالبروک ہی رہ گیا ہے۔ پاکستانی قوم کا المیہ یہ ہے کہ یہاں باڑ ہی کھیت Ú©Ùˆ کھار ہی ہے۔

وہ جنھیں حکمران بنایاگیا ہے اور جو اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ ہماری سرحدوں کی حفاظت کریں، جغرافیائی وحدت کو قائم اورنظریاتی سمت کو سلامت رکھیں اور اس ملک کے اندر بسنے والے انسانوں کی ضروریات کابھی خیال رکھیں لیکن وہ جو کچھ کررہے ہیں کسی سے مخفی نہیں ہے۔اگر امریکی جنگی طیاروں کے بارے میں کوئی جواب نہیں دیتا تو ہم پرامن جدوجہد کے ذریعے اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے عوام الناس کوآگاہ کریں گے۔پھرکہاجائے گاکہ معاشرے میں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ اگر امریکی طیارے بلاروک ٹوک آئیں اور بلیک واٹر اور دوسری امریکی ایجنسیوں کے لوگ اسلام آباد اور پشاور میں دندناتے پھریںتو یہ دہشت گردی اور مداخلت نہیں ہے لیکن اس کے خلاف احتجاج کرناانتہا پسندی کے زمرے میں آتاہے۔

امریکہ پاکستانی حکومت اور فوج سے بار بار مطالبہ کررہاہے کہ ملا عمر اور اس Ú©ÛŒ کوئٹہ شوریٰ Ú©Û’ خلاف ایکشن لیا جائے۔ اسامہ بن لادن قبائلی علاقوں میں ہے،اس Ú©Ùˆ گرفتار کرکے ہمارے حوالے کیاجائے اور جنوبی وزیرستان میں فوری فوجی آپریشن شروع کیا جائے ورنہ ڈرون طیاروں Ú©Û’ حملے کوئٹہ میں بھی شروع ہوجائیں Ú¯Û’ اور وزیرستان پرہونے والے ڈرون حملوں میں مزید شدت آئے گی۔ افغانستان میںہزیمت اور شکست سے دوچار ہونے والے کوئٹہ Ú©ÛŒ طرف آنا اور 'سب سے پہلے پاکستان"˜ Ú©Û’ پرویزی فارمولے پر عمل کرناچاہتے ہیں، اورکوئی نہیں ہے جو معذرت خواہانہ رویے Ú©Ùˆ ترک کر Ú©Û’ اور معذرت Ú©Û’ خول سے باہر Ù†Ú©Ù„ کر بات کرے۔ این آر او Ú©Û’ ذریعے حکومت میں آنے والے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں اور کیری لوگر بل Ú©Û’ ذریعے اقتدارکوبچانا اور اسے دوام دینا چاہتے ہیں۔

بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اور حالات کے جبرسے بچنے کے لیے اس حکومت کاچلتے رہناضروری ہے۔ہم بھی اس بات کے خواہاں ہیں مگر حکومت کا چلنا تو امریکی غلامی کی طرف چلتے رہنا نظر آتا ہے۔ہمارے حکمران انتہائی سستے داموںپوری قوم کو امریکی غلامی میں دیناچاہتے ہیں۔ امریکہ ان کے لیے اول و آخر قرار پایا ہے۔ وہ تو اس بات پرہی بہت خوش ہےں کہ امریکی امدادکے لیے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ فوج سیاست و حکومت اور عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔حالانکہ یہ کام تو ہمارے طے کرنے کا ہے کہ عدلیہ کو آزاد اور حکومت سے فوج کے سائے کودور ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی ضمانتوں سے فوجی مداخلت کو نہیںروکا جا سکتا، ان کے مفاد میں ہوا تو وہ کل پھر ایک ڈکٹیٹر کو سپورٹ کریں گے۔فوجی مداخلت کو گڈگورننس کے ذریعے سے روکا جا سکتا ہے جو چراغ لے کر تلاش کرنے سے بھی کہیں نظر نہیں آتی ہے۔

بل میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ مریدکے اور کوئٹہ میںدہشت گردی کے گھروندوں سے نجات حاصل کی جائے۔ یعنی اڈے تو موجودہیںاور ہم تسلیم کرلیںکہ ساری دہشت گردی یہاں سے ہورہی ہے۔اسی طرح یہ وارننگ دی گئی ہے کہ آس پڑوس میں ہر طرح کی دہشت گردی سے پاکستان کو گریز کرنا چاہیے۔ یعنی اس وقت تو آپ یہ کام کررہے ہیں لیکن اس بل کے منظور ہونے کے بعد آپ کویہ کام نہیں کرناہے۔ گویاصر ف امریکہ کی نہیں، بھارت کی غلامی بھی قبول کرنی پڑے گی

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرضوں اور امداد کے بغیرہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ بالفاظ دیگر وہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ صاحب! غلامی کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہوسکتا۔ غلام ہوجائیں تو شاید امریکہ نامی آقا دو وقت کھانے کو دے گا۔ مگر یہ بھی غلط فہمی ہے۔ امریکہ نے قبضہ کرکے عراق و افغانستان کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی ہے مگر وہاں سوائے قتل و غارت گری اور تباہی کے کچھ دے نہیں سکاہے۔اس کی غلامی کوئی اچھی چیز ہوتی تو ان دو ملکوں میں تو ضرور شہد اور دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں ۔اسی اثنا میںیہ بحث بھی چلی ہے کہ کورکمانڈرز کے اجلاس کے بعد آئی ایس پی آر کو کھلے بندوں کیری لوگر بل کے خلاف بیان جاری نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کوسیکرٹری ڈیفنس، دفاعی کمیٹی اور صدر اور وزیراعظم سے بات کرنی چاہیے تھی۔اگرچہ میں خود اس بات کے حق میں ہوں کہ فوج کو اس طرح بیان جاری نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں وہ خود کسی قاعدے اور ضابطے کے پابند ہیں؟

صدر اور وزرانے واشنگٹن میں ہی بل کی حمایت میں ڈونگرے برسانے شروع کردیے تھے۔اگر یہ عمل نہ ہوتااور وطن واپس آکر پارلیمنٹ سے مشاورت کی جاتی اورقوم اور اداروںکو اعتماد میں لیاجاتا تو شاید فوج کا ردِ عمل سامنے نہ آتا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ حکمرانوں نے کسی مینڈیٹ اور وعدے کو آج تک پورا کیاہے؟ وزیر اعظم کی جگہ دورے صدر کرتے ہیں اورملک و قوم کی قسمت کے حوالے سے فیصلے بھی مگر کبھی انھوں نے قوم اور پارلیمنٹ کواعتماد میں لیاہے کہ وہ باہر جا کرکیاکرتے ہیںاور ہروقت ان کے ملک سے باہر رہنے کا کیا جواز ہے؟ کسی نے درست نشاندہی کی کہ صدر صاحب عید پر بھی ملک سے باہر تھے مگر خبرہی نہیں آئی کہ وہ شکاگو ،نیویارک ،واشنگٹن کی کسی مسجد یا کوپن ہیگن کے کسی اسلامک سنٹر میں کھڑے ہوں اور عید کی نماز کہیں پڑھی ہو۔

صدر صاحب کہیں نماز ِعید کو پڑھے جانے کا شرف بخشتے تو باقاعدہ خبر اورتصویر چھپتی کہ کیمرہ تو ہر وقت ان کے ہمراہ ہوتاہے۔اس کی ہی اطلاع نہیںملی تو باقی دورے کی کیا رپورٹ ملے گی۔ امریکیوں کا دعوی ہے کہ اب تک تین بلین ڈالر سے زائد حکومت پاکستان کو دیے ہیں مگر وزیرخزانہ کے مطابق صرف 90کروڑ ڈالر ملے ہیں تو باقی کے 2ارب 10 کروڑ ڈالر کہاں غائب ہوگئے۔ صدر صاحب کشکول گدائی لیے یہاں وہاں پھرتے ہیں اور قوم کے نام پر بھیک مانگتے ہیں تو انھیں بتانا چاہیے کہ یہ پیسہ کہاں گم ہوگیاہے۔قوم کوبے وقار اور بے آبرو کرتے ہیں مگر پیسہ راستے میں ہی غائب ہوجاتاہے۔

قومی اسمبلی میں کیری لوگر بل پر بحث ومباحثہ شروع ہوا ہے تو یہ خوش آئندہے۔ اسمبلی کواپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس بل Ú©Ùˆ مسترد کردینا چاہیے تاکہ قوم Ú©Û’ اندر آزادی Ùˆ خودمختاری کا احساس پیداہو۔ عوام الناس Ù†Û’ جماعت اسلامی Ú©ÛŒ 'گوامریکہ Ú¯Ùˆ"˜ØªØ­Ø±ÛŒÚ© پر صاد کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ امریکی غلامی اور اس Ú©ÛŒ بڑھتی ہوئی مداخلت Ú©Ùˆ قبول کرنے Ú©Û’ لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے ہر سروے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستانی قوم Ú©ÛŒ واضح اکثریت امریکہ سے کسی قسم Ú©Û’ اتحاد Ú©Û’ خلاف ہے اوریہاں اس Ú©ÛŒ موجودگی Ú©Ùˆ اپنی سلامتی Ú©Û’ لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ یہ عوامی نمائندگی Ú©Û’ دعویداروں کا امتحان ہے کہ وہ قوم کا ساتھ دیتے ہیں یا امریکی صف میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہونے Ú©Ùˆ اپنے لیے باعث فخر خیال کرتے ہیں۔

 
Bashukria ::  www.khabrain.com  
 No replies/comments found for this voice 
Please send your suggestion/submission to webmaster@makePakistanBetter.com
Long Live Islam and Pakistan
Site is best viewed at 1280*800 resolution