مسجد ہو،مدرسہ ہو یا کہ خانقاہ ہو
مسجد مدرسہ خانقاہ ، درگاہ اب پاکستان میں کچھ بھی تو محفوظ نہیں رہا۔حالانکہ یہ وہ متبرک اور مقدس مقامات ہیں جن کا احترام بلا تفریق مذہب وملت اور مسلک ، ہر کس و ناکس کرتا ہے ۔ ان مقامات کو ہرجگہ تقدس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔لیکن ان دنوں پاکستان میں کچھ ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جس کے سببب ان مقامات کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔ خاص کر پاکستان میں ایسے متواتر واقعات سامنے آئے ہیں ،جہاں انھیں مقامات کونشانہ بنایا گیا اور دہشت گردی کی بد ترین صورت سامنے آئی ۔یہ واقعات ایسے ملک میں رونما ہورہے ہیں جو اسلامی ملک ہے۔ گذشتہ دو تین مہینے میں کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں مسجد اور درگاہ میں موجود بے قصور افراد کو ہلاک کیاگیا۔دہشت گردی کی یہ وہ صورتیں ہیں جن کی توقع کم از کم اسلامی ملک میں نہیں کی جاسکتی تھی ۔ اسی طرح دہشت گردی کی ایک بد ترین صورت کچھ عرصہ قبل پاکستان میں سامنے آئی تھی کہ جنازے کے جلوس پر خود کش حملے ہوئے ۔یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے دہشت گردی کی سب سے گھناونی صورت تھی ۔ہر طرف سے اس کی مذمت کی گئی با وجود اس کے کئی ایسے متواتر واقعات سامنے آئے ۔ جب یہ سلسلہ رُکا تو اس کے بعد دہشت گردوں نے ایک اور بد ترین منصوبہ بنایا ، اب انھوں نے اولیائے کرام کی بارگاہوں اور مسجدوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ پہلے حضرت داتا گنج بخش اور حضرت عبداللہ شاہ غازی، درگاہ حضرت امام بری کے بعد حضرت فرید الدین گنج شکر کے مزار پر حملے ہوئے۔اور اب مسجدوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ابھی کل ہی پاکستان سے انتہائی المناک خبر آئی جہاں دو الگ الگ واقعات میں مسجد کو خود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔پہلی خبر درہ آدم خیل میں اخر وال سے آئی جہاں مسجدپر خودکش حملے میں بچوں سمیت 67 نمازی جاں بحق اور90 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے۔ کالعدم تحریک طالبان نے اس گھناؤنی کارروائی کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ۔ دہشت گردوں کی دیدہ دلیری کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہےکہ انھوں نے دھماکے کے فورا ً بعد ذمہ داری قبول کر لی ہو۔انھوں نے ہر دھماکے کے بعد ذمہ داری قبول کر کے در اصل پاکستانی حکومت کو اپنی مضبوطی کو بتانے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن افسوس یہ ہےکہ اب تک کسی بھی دھماکے کے ملزموں کو حکومت گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے ۔یہی وجہ کہ دن بدن ان کے حوصلے بڑھتے رہے اور اس طرح کی گھناونی حرکتوں سے پاکستان کو نہ صرف غیر مستحکم کررہے ہیں ۔ بلکہ ساری دنیا میں پاکستان کی شبیہ کو خراب کر رہے ہیں ۔شاید حکومت کی اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردو کل اخوروال کی جامع مسجد میں دھماکہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اب تک یہ نہیں پتی چل سکا ہے کہ اس دھماکے کی وجہ کیا تھی اور کن لوگوں کو نشانہ بنانےکی کوشش ہوئی تھی ۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مسجد میں مومن گروپ کے طالبان نماز پڑھا کرتے ہیں اور یہ کارروائیاں تحریک طالبان گروپ نے کی ہے اور مومن گروپ کے اہم دشمن کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مشکل یہ ہےکہ پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان بھی کئی گروپ بنے ہوئے ۔ کہیں قبیلے کے نام ہر تو کہیں مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ ان کو ان مقدس مقامات میں نشانہ بنایا جائے ۔ در اصل یہ ان کے لیے سوفٹ ٹارگیٹ ہے ۔انھیں یہاں مدافعت کا بھی خطرہ نہیں رہتا کوینکہ سب لوگ عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔کل بھی ایسا ہی ہوا کہ جب لوگ اخور وال کے گاؤں دڑی خیل کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کررہے تھے کہ ایک سترہ سالہ خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ دھماکا اتنا زور دار تھا کہ پورا علاقہ لرز اٹھا اورمسجد کی چھت نمازیوں پرآ گری جس کے باعث متعدد نمازی ملبے تلے دب گئے ۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور پیدل تھا اور اس نے مسجد کے دروازے کے پاس خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ ڈی سی کوہاٹ شاہد اللہ نے بتایا کہ ایک خودکش حملہ آور نے درہ آدم خیل کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران مسجد میں داخل ہوکر خود کو دھماکے سے اڑادیا۔دھماکا انتہائی شدید تھا، جس کی آواز دور دور تک سنی گئی، دھماکے سے مسجد بھی جزوی طور پرشہید ہوگئی، اور اس کی چھت نمازیوں پر آگری۔ اطلاعات کے مطابق پچاس سے زائد نمازی شہید ہوئے ہیں۔ایک اور الگ واقعے میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے مقام پر مسجد میں نماز عشاء کے دوران دھماکے میں امام مسجد سمیت تین افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے ۔ بڈھ بیر سلمان خیل کی مسجد میں دھماکا اس وقت ہوا جب یہاں تقریبا ستر کے قریب لوگ نماز عشاء ادا کر رہے تھے ، نمازیوں میں بچوں کی بھی بڑی تعداد تھی ۔پاکستان ایسی سرزمین بن چکی ہے جہاں دہشت گردی زندگی کا معمول ہو گئی ہے ۔ ڈرون حملے، خودکش حملے ، ٹارگیٹ کلینگ اور دہشت گردی ۔ یہ سب کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہورہا ہے ۔ کوئی کسی کا پر سان حال نہیں ہے ۔ ہر طرف بد امنی اور تاراجی کا دار دورہ ہے ۔حکومت بے بس اور عوام خاموش اور تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان کی یہ بدحالی اور دہشت گردی کی یہ بھیانک تصویر دن بدن اور بھیانک ہوتی جارہی ہے۔اور سد باب کی کوششیں تقریبا ً ناکام ہورہی ہیں۔ ان وجوہات پر روزنامہ جنگ کےایک کالم میں اس طرح تبصرہ کیا گیا ہے۔‘‘ امریکہ نے جب سے نائن الیون اسٹیج کیا ہے تب سے پاکستان ایک غیرمحفوظ ملک ہے۔ پہلے مسلح افواج، پولیس، عسکری اداروں اور پبلک مقامات کو ٹارگٹ کیا گا، شیعہ سنی رہنماؤں کو قتل کیا گیا، شیعہ سنی مسلمانوں کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا گیا اور اب مسلکی اختلافات کی بھٹی دہکانے کے لئے اولیاء اللہ کے مزارات کی بے حرمتی، شناخت کو ختم کرنا اور دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ خود پاکستانی پاکستانیوں کو مار رہے ہیں، یہ بالکل عراق جیسی کارروائیاں ہیں جہاں مساجد اور اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کرائے گئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مزار پر دھماکہ، کربلا میں دھماکہ، نجف میں دھماکہ اور الزام یہ کہ عراقیوں کے ہاتھوں عراقیوں پر ظلم ہورہا ہے۔ پاکستان میں ایک طرف ڈرون حملوں کے ذریعے امریکہ براہ راست پاکستانیوں کا قتل عام کررہا ہے دوسری طرف سی آئی اے، ایف بی آئی، بلیک واٹر اور دشمن ممالک کے کارندوں اور موساد کو سہولتیں مہیا کرکے، جاسوسی کرکے، سازشیں کرکے، دہشت گردی کرکے دھماکہ کرکے پاکستانیوں کو ہلاک کیا جارہاہے۔’’ تبصرہ نگار کی یہ بات بہت حد تک درست ہے ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ اگر ان حالات میں بھی پاکستانی حکومت نے خود کو بچانے کی کوشش کی ہوتی ت وکئی راستے نکل سکتے تھے ۔ لیکن اب تو کچھ کرنا اس لیے مشکل ہےکہ اب پاکستان ایک ایسے جال میں پھنس چکا ہے کہ اس سے نکلنے کی جتنی کوشش کرےگا اسی قدر وہ اس جال میں پھنسا چلا جائے گا۔فارسی کا ایک ضرب المثل ہے کہ ’ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن’آج کے پاکستان کے حالات پر صادق آتا ہے ۔
ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پھر سے علاقائی ، نسلی اور مسلکی اختلافات کو ہو ادیدی ہے ۔ حکومت نے حالانکہ دیر کر دی ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ اس طرح کے عناصر کی نشاندہی کی جائے اور اسے حکومت اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے تاکہ جلد از جلدایسے عناصر سے پاکستان کو پا ک و صاف کیا جاسکے۔مسئلہ یہ ہےکہ پاکستان خود اتنے مسائل میں الجھا ہوا ہےکہ ہر نئے دن ایک نئی پریشانی سامنے آجاتی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان مسائل سے نپٹا نہیں جا سکتا ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستانی حکومت اپنے اندرونی مسائل پر خصوصی توجہ دے ۔ ابھی حالت یہ کہ موجودہ حکومت نےاپنی ساری توجہ داخلی معاملات سے ہٹا کر خارجہ پالیسی پر مر کوز کر رکھا ہے ۔اگر اس جانب کبھی متوجہ بھی ہوتی ہے تو حکومت کے استحکام کے لیے الٹے سیدھے کاموں میں لگی رہتی ہے۔ آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں اس طرح کے واقعات اور بھی اس لیے سامنے آرہے ہیں کہ حکومت کمزور ہے اور ایسے عناصر زور آور ہیں ۔
|